پھر 'چونا لگ گیا': پاکستان اور وائٹ واش کی تاریخ
"ناقابلِ یقین" ہونا اعزاز ہے یا پھر ایک طعنہ، اس بارے میں اعتماد سے کچھ کہنا مشکل ہے۔ لیکن اگر دنیائے کرکٹ کی کسی ایک ٹیم کو یہ "خطاب" دیا جا سکتا ہے، تو وہ آج بھی پاکستان ہے۔ آسٹریلیا، بھارت، اور جنوبی افریقہ کو اُن کے میدانوں میں جا کر شکست دینے والی ٹیم کو اب ایک ایسی شکست سہنا پڑی ہے، جس کے زخم مدتوں ہرے رہیں گے: عالمی درجہ بندی میں نویں نمبر پر موجود بنگلہ دیش کے ہاتھوں کلین سویپ!
یہ پہلا موقع نہیں ہے کہ پاکستان کو ایسی 'اصلی تے وڈی' شکست کھانی پڑی ہے۔ مجموعی طور پر یہ ایک روزہ تاریخ میں نواں کلین سویپ ہے جو پاکستان کو سہنا پڑا ہے۔ بس اس کی شدت پہلے سے کہیں زیادہ ہے کیونکہ پاکستان کو ایک ایسی ٹیم سے بھاری شکست ہوئی ہے، جو گذشتہ 16 سالوں میں اس کے خلاف کبھی سر نہیں اٹھا سکی تھی۔
پاکستان کو ایک روزہ تاریخ میں پہلی بار یہ ہزیمت اس وقت اٹھانی پڑی جب 1980ء میں 'عظیم' ویسٹ انڈیز نے پاکستان کو اسی کے میدانوں پر ہار کا مزا چکھایا۔ پاک سرزمین پر کھیلی گئی اس سیریز میں ویسٹ انڈیز نے پہلے 4 وکٹوں سے کراچی کا قلعہ فتح کیا اور پھر سیالکوٹ اور لاہور میں ہونے والے مقابلے بھی جیت کر پاکستان کو پہلی بار "وائٹ واش" سے دوچار کیا۔
حیران کن بات یہ ہے کہ پاکستان کو دوسری بار بھی اس تذلیل کا سامنا اپنے ہی میدانوں پر کرنا پڑا۔ جب 1987ء میں انگلستان پاکستان کے تاریخی دورے پر آیا تو اس نے تینوں مقابلوں میں کامیابی سمیٹی۔ انگلینڈ پہلے لاہور میں دو وکٹوں سے، پھر کراچی میں 23 رنز سے، اور پھر پشاور میں کھیلے گئے آخری ایک روزہ میں 98 رنز سے ظفرمند ٹھہرا۔
گیلری: بنگلہ دیش کی تاریخی فتح
ویسے یہی وہی دورہ تھا جس میں ٹیسٹ سیریز کے دوران ہمیں "جنگ عظیم" دیکھنے کو ملی۔ انگلستان کے کپتان مائیک گیٹنگ اور امپائر شکور رانا کے درمیان تلخ کلامی نے فیصل آباد کے میدان کو اکھاڑا بنا دیا تھا، اور تاریخ میں پہلی بار پورے ایک دن کا کھیل ضائع ہوا۔ اسے آج بھی ٹیسٹ کرکٹ کے بدترین واقعات میں ایک گردانا جاتا ہے۔
بہرحال، ہم اس سے آگے بڑھتے ہیں۔ اب تک جن سیریز کے بارے میں بتایا ہے، وہ تین مقابلوں تک محدود تھیں۔ لیکن پاکستان کو 1988ء میں پانچ مقابلوں کی سیریز میں بھی وائٹ واش ہوا ہے، اور وہ بھی عمران خان کی قیادت میں۔ ویسٹ انڈیز کی عظیم طاقت کو زیر کرنے کے لیے جو صلاحیت درکار ہونی چاہیے، پاکستان کے پاس وہ ضرور تھی لیکن وہ ایک بار بھی اسے اچھی طرح بروئے کار نہ لا سکا۔ ویسٹ انڈیز نے پہلے مقابلے میں 47 رنز، دوسرے میں 5 وکٹوں، تیسرے میں 50 رنز اور چوتھے و پانچویں میں 7، 7 وکٹوں سے کامیابی حاصل سمیٹی اور یوں پاکستان کے کھلاڑی منہ لٹکائے وطن واپس آئے۔
1998ء اور 2000ء میں اپنے ہی میدانوں پر آسٹریلیا اور سری لنکا کے ہاتھوں اس ہزیمت سے دوچار ہونے کے بعد پاکستان نے ایک طویل وقفہ لیا۔ یہاں تک کہ 2010ء آ گیا۔ یہی وہ سال تھا جب پاکستان کی کرکٹ صف اول سے نکل کے دوسرے درجے میں داخل ہوئی۔ ایک سال قبل لاہور میں سری لنکا کی کرکٹ ٹیم پر دہشت گردوں کے حملے نے ملک میں بین الاقوامی کرکٹ کا خاتمہ کیا اور اس کے بعد جو کسر رہ گئی تھی وہ 2010ء میں آسٹریلیا کے دورے پر تمام مقابلوں میں شکست اور اس کے بعد اسپاٹ فکسنگ اسکینڈل نے پوری کردی۔
پڑھیے: پاکستان کو بنگلہ دیش کے ہاتھوں شرمناک وائٹ واش
پہلے ذکر کریں گے، آسٹریلیا کے ہاتھوں ذلت آمیز شکست کا۔ محمد یوسف کی زیرِ قیادت آسٹریلیا پہنچنے والا دستہ جیت کے جذبے اور جوش سے عاری دکھائی دیتا تھا۔ تمام ہی ٹیسٹ مقابلوں میں مغلوب ہونے کے بعد جب محدود اوورز کی کرکٹ کا مرحلہ آیا تو بھی شکست سے دامن نہ چھڑایا جا سکا۔ ایک کے بعد دوسری شکست، یہاں تک کہ پاکستان تمام پانچ مقابلے ہار گیا اور یوں تاریخ میں محض دوسری بار پانچ مقابلوں کی سیریز سے خالی ہاتھ واپس آیا۔ اگر یہ کہیں تو غلط نہ ہوگا کہ آسٹریلیا نے 'بہت بے آبرو ہو کر' نکالا گیا۔
اس کے بعد اگست 2010ء میں اسپاٹ فکسنگ کے معاملے نے پاکستان کرکٹ کو شکنجے میں لیا۔ جب تک اس کی دھول بیٹھتی تب تک بڑی تبدیلیاں رونما ہوئیں۔ نیا کپتان، نئے کھلاڑی اور ان سے بھی زیادہ پریشان کن بات یہ کہ نئے میدان۔ پاکستان اپنے ملک میں میزبانی کا اہل نہیں تھا اس لیے پاکستان کی نظر نیوزی لینڈ، سری لنکا اور انگلستان سے ہوتی ہوئی بالآخر متحدہ عرب امارات پر جا ٹھیری۔
بس یہی صحرا پاکستان کا مسکن بنا جہاں 2012ء کے اوائل میں پاکستان نے سیریز کے تینوں مقابلے جیت کر انگلستان کو تاریخی ٹیسٹ سیریز شکست دی۔ لیکن زیادہ خوشی تو ہمیں راس ہی نہیں آتی۔ اسی سیریز کے فوراً بعد پاکستان کو انگلستان کے ہاتھوں چار ایک روزہ مقابلوں کی سیریز میں کلین سویپ کی ذلت اٹھانی پڑی۔
اب آپ کو پاکستان کے آخری وائٹ واش کے بارے میں بتاتے چلیں، کیونکہ ہماری قومی یادداشت کچھ اچھی واقع نہیں ہوئی ہے۔ اکتوبر 2014ء میں پاکستان کو متحدہ عرب امارات کے میدانوں پر آسٹریلیا کے ہاتھوں تینوں ایک روزہ مقابلے ہارنے پڑے۔
مزید پڑھیے: ون ڈے ٹیم کو کم از کم دو سال موقع دیں، مصباح
سیریز کا آغاز آسٹریلیا کی 93 رنز کی واضح کامیابی کے ساتھ ہوا اور آخری مقابلے میں 1 رنز کی تاریخی فتح کے ساتھ اختتام پذیر ہوئی۔ تیسرے مقابلے تک پہنچتے پہنچتے پاکستان کا یہ حال ہوگیا تھا کہ آخری اوور میں جیت کے لیے درکار 2 رنز نہ بنا سکا اور یوں کلین سویپ کا طوق گلے میں لٹک گیا۔
ویسے مزیدار بات یہ ہے کہ اس کے بعد پاکستان ٹیسٹ سیریز میں بالکل مختلف روپ میں نظر آیا۔ جب کسی کو امید نہیں تھی تو پاکستان نے دونوں ٹیسٹ جیتے اور آسٹریلیا کو تاریخی انداز میں "الوداع" کہا۔
اس لیے یہ کہنا تو درست نہ ہوگا کہ پاکستان کی کرکٹ "مر" چکی ہے۔ لیکن پھر بھی بنگلہ دیش کے ہاتھوں شکست کو ہضم کرنا واقعی بہت مشکل ہے۔ پاکستان نے جب بھی سیریز کے تمام مقابلے ہارے ہیں، تو اس کا سامنا زیادہ تر اپنے وقت کی بہترین ٹیموں سے تھا۔ جیسا کہ 1988ء کی ویسٹ انڈیز اور 2010ء اور 2014ء کی آسٹریلیا۔
لیکن عالمی درجہ بندی میں آخری نمبروں پر موجود بنگلہ دیش کے ہاتھوں اس بری طرح شکست؟ لگتا ہے کہ نئے کھلاڑیوں اور نئے کپتان کا سفر بہت کٹھن ہوگا۔ پاک-بنگلہ سیریز اور اس کا پہلا نتیجہ ظاہر کرتا ہے کہ قومی ٹیم کی تشکیلِ نو ایک بہت مشکل، صبر آزما اور کڑا مرحلہ ہوگی۔