لانگ مارچ سے قبل قومی اسمبلی میں حکومت کی شدید مخالفت کا امکان
اسلام آباد: پیر کو شروع ہونے والے قومی اسمبلی کے اجلاس میں شدید قسم کی محاذ آرائی دیکھے جانے کا امکان ہے، وزیراعظم نواز شریف کی حکومت کو چودہ اگست کو درپیش ایک بڑے چیلنج سے قبل ایسی صورتحال کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے۔
رمضان کے دوران پیدا ہونے والے تلخ سیاسی تنازعات کے فوراً بعد شروع ہونے والے اجلاس کے لیے سیاسی حریفوں نے اپنی حکمتِ عملی کی منصوبہ بندی کرلی ہے، جبکہ ایسا لگتا ہے کہ انتظامیہ آنے والے ایک خوفناک نقصان سے بچنے کے لیے ہر قسم کےتنازعات سے گریز کررہی ہے، جو اس کو اسلام آباد میں ملک کے یومِ آزادی کے موقع پر تحریک انصاف کی جانب سے ایک لانگ مارچ کی صورت میں ہوسکتا ہے۔
پی ٹی آئی کے عمران خان نے پارلیمنٹ ہاؤس کے باہر غیرمعینہ مدت کے لیے دھرنا دینے کے ارادے نے حکمران جماعت مسلم لیگ نون کے ایک تلخ تصادم سے دوچار کردیا تھا، جبکہ وزیرداخلہ چوہدری نثار علی خان نے ایک نوٹیفکیشن کا انکشاف کرکے گویا جلتی پر تیل ڈالنے کا کام کیا، جس میں کہا گیا تھا کہ حکومت نے اسلام آباد میں سول انتظامیہ کی مدد کے لیے فوج کو طلب کیا ہے۔
تحریک انصاف کا لانگ مارچ بنیادی طور پر لاہور سے اسلام آباد کی جانب ہوگا، اس پر حزبِ اختلاف کی جماعتیں متحد نہیں ہیں، اور آئین کے آرٹیکل 245 کے تحت جاری کیے جانے والے نوٹیفکیشن کی تمام جماعتوں نے مخالفت کی ہے، اور اس بات کا امکان ہے کہ یہ اہم سیاسی معاملے پر قانون ساز قومی اسمبلی میں اور سینیٹ کے اجلاس میں احتجاج کریں گے۔ توقع ہے کہ سینیٹ کا اجلاس اگلے ہفتے طلب کیا جائے گا۔
دراصل پی ٹی آئی صوبہ پنجاب میں قومی اسمبلی کے چار انتخابی حلقوں میں ووٹرز کے انگوٹھوں کے نشانات کی دوبارہ جانچ کے مطالبے کے ذریعے پچھلے سال گیارہ مئی کے انتخابات میں مبینہ دھاندلی کا اندازہ لگانے کی کوشش کررہی ہے۔
لیکن چونکہ حکام کی جانب سے ایک سال پہلے لگائے گئے الزامات کی جانچ پڑتال اب تک نہیں ہوئی ہے، چنانچہ اب بہت سی چیزیں کافی دور چلی گئی ہیں۔
مستقبل میں مجوزہ انتخابی اصلاحات کے لیے تمام جماعتوں کے تینتس ارکان پر مشتمل ایک کمیٹی کے ناموں سے عمران خان مطمئن نہیں ہوئے اور حال ہی میں انہوں نے ایک سوال پیش کیا ہے کہ جب افغانستان میں حریف امیدوار مکمل صدارتی انتخابات کے حتمی فیصلے کے لیے ایک امریکی ثالث کے ذریعے آڈٹ پر رضامند ہوسکتے ہیں تو پھر ایسا ہی پاکستان میں کیوں نہیں کیا جاسکتا؟
اگرچہ پی ٹی آئی نے ابھی اپنے حتمی مطالبات کا اعلان نہیں کیا ہے، تاہم قیاس آرائیاں کی جارہی ہیں کہ وہ مڈٹرم انتخابات کے علاوہ کچھ بھی قبول نہیں کرے گی۔
عمران خان کے ساتھ خفیہ رابطوں سے ملنے والی اطلاعات سے اور آرٹیکل 245 پر غیرمعمولی ردّعمل سے حکومت کی پریشانی ظاہر ہے، اگرچہ فوج کے ذرائع کا کہنا ہے کہ وفاقی دارالحکومت میں اب تک فوجی دستوں کی تازہ تعیناتی نہیں کی گئی ہے، سوائے ان چند سو فوجیوں کے جنہیں شمالی وزیرستان میں آپریشن کے آغاز کے وقت تعینات کیا گیا تھا۔
اب تک کسی نے بھی تین سو سے زیادہ فوجیوں کی تعیناتی پر اعتراض نہیں کیا تھا، جنہیں عسکریت پسندوں کے ممکنہ ردّعمل سے بچنے کے لیے اہم مقامات پر حفاظتی حکمتِ عملی کے تحت متعین کیا گیا تھا۔ لیکن آرٹیکل 245 کے تحت جاری کیے جانے والے نوٹیفکیشن نے خطرے کی گھنٹی بجادی اور جسے اسلام آباد ہائیکورٹ میں چیلنج کردیا گیا اور پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں میں احتجاج کا ارادہ ہے۔
روحانی ڈھال؟
وزیراعظم نے ایک ہفتہ مکہ اور مدینہ کی زیارتوں میں گزارا، تاکہ وہ اپنے سیاسی حریفوں کے خلاف روحانی حفاظت حاصل کرسکیں۔ اسی دوران شمالی وزیرستان میں جاری آپریشن میں تیزی آئی ، جبکہ دوسری جانب عمران خان اور طاہرالقادری کی شعلہ بیانی میں بھی اضافہ ہوا، جو سخت ترین ناقد سمجھے جاتے ہیں اور جن کا کہنا ہے کہ موجودہ حکومت اگست سے زیادہ نہیں چل سکے گی۔
اگر سعودی عرب کی زیارتوں سے وزیراعظم خود کو روحانی طور پر فیضیاب ہوئے ہیں، تو وہ آنے والے دنوں میں ظاہر ہوسکتا ہے، جیساکہ ان کے کسی زمانے میں سرپرست اور فوجی صدر محمد ضیاءالحق اپنے بارے میں عام طور پر متعدد مرتبہ کہا کرتے تھے، لیکن ان کی سعودی عرب کی زیارتیں اس قدر نہیں تھیں اور نہ ان کے ناقدین پارلیمنٹ میں ذاتی طور پر ان پر تنقید کرنے کی جرأت کرسکتے تھے، اور نہ ہی ان کے وزراء سے استعفے کا مطالبہ کرسکتے تھے۔
پیپلزپارٹی جو پی ٹی آئی کے دھرنے کی تائید نہیں کی ہے، جو عمران خان کے کہنے کے مطابق پارلیمنٹ ہاؤس کے قریب ڈی چوک پر منعقد کیا جائے گا، تاہم امکان ہے کہ پی ٹی آئی اور پیپلزپارٹی دونوں ہی آرٹیکل 245 کے تحت فوج کی طلبی پر شروع ہونے والے قومی اسمبلی کے اجلاس میں احتجاج کریں گی۔ یاد رہے کہ بنیادی طور پر یہ اجلاس پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس سے صدر ممنون حسین کے خطاب پر بحث کے لیے طلب کیا گیا ہے۔
یہی وجہ سے کہ سہہ پہر چار بجے شروع ہونے والے اس اجلاس سے قبل حزبِ اختلاف کی یہ دونوں اہم جماعتیں اپنے پارلیمانی گروپس کے اجلاس منعقد کریں گی۔