• KHI: Zuhr 12:18pm Asr 4:07pm
  • LHR: Zuhr 11:49am Asr 3:24pm
  • ISB: Zuhr 11:54am Asr 3:24pm
  • KHI: Zuhr 12:18pm Asr 4:07pm
  • LHR: Zuhr 11:49am Asr 3:24pm
  • ISB: Zuhr 11:54am Asr 3:24pm

شاندار فتح؟

شائع December 7, 2013
نیٹو کے لیے معاملات مشکلات بنانا ایک طرف، اس ناکہ بندی سے خود پاک ۔ افغان تجارت کے لیے رکاوٹیں کھڑی ہورہی ہیں۔,اے ایف پی فوٹو۔۔۔۔۔
نیٹو کے لیے معاملات مشکلات بنانا ایک طرف، اس ناکہ بندی سے خود پاک ۔ افغان تجارت کے لیے رکاوٹیں کھڑی ہورہی ہیں۔,اے ایف پی فوٹو۔۔۔۔۔

لگتا ہے ڈرون حملوں کے خلاف پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کی ناکہ بندی کے نتائج برآمد ہورہے ہیں۔ امریکی حکام کا کہنا ہے کہ احتجاج کے باعث افغانستان سے بذریعہ پاکستان، سامان کی ترسیل روک دی گئی ہے۔

طورخم کے راستے نیٹو سپلائی کے ٹرکوں کی آمد و رفت روکنے کا امریکی فیصلہ بظاہر حفاظتی نقطہ نظر کے تحت کیا گیا ہے لیکن جیسا کہ پی ٹی آئی کے اپنے الفاظ تھے، یہ ایک 'شاطرانہ چال' ہے۔

اس کے باوجود، عمران خان یا ان کی پارٹی کے ارکان اگر یہ سمجھتے ہیں کہ ناکہ بندی سے پاکستان ۔ امریکا کے سیکیورٹی تعلقات کی نوعیت بدل جائے گی یا پھر ملکی سرزمین پر امریکی ڈرون حملے بند ہوجائیں گے تو ایسا ہونا ممکن نظر نہیں آتا۔ افغانستان کے اندر اور یہاں سے باہر، اپنا سامان لانے لے جانے کے لیے امریکیوں کے پاس اور بھی کئی راستے ہیں۔:

ایک راستہ روس اور وسط ایشیائی ریاستوں کے ذریعے ناردرن ڈسٹری بیوشن نیٹ ورک کا ہے۔ اگرچہ یہ واشنگٹن کے لیے بہت مہنگا ہے لیکن سن دو ہزار گیارہ میں سلالہ واقعے کے بعد نیٹو سپلائی روکے جانے پر، وہ یہی راستہ استعمال کرتے رہے ہیں۔ اس کے علاوہ، بلوچستان سے افغانستان کا راستہ بھی اب تک بدستور کھلا ہے۔

اور جب تک فاٹا کے میدان پر عسکریت پسندوں کے قدم رہیں گے تب تک یہ توقع ہی فضول ہے کہ امریکی ڈرون حملوں کا سلسلہ تھم جائے گا۔

احتجاج کرنا پی ٹی آئی کا حق ہے تاہم اب وہ اس نکتے کو سامنے لاچکے اور 'فتح' بھی مل چکی، لہٰذا اب انہیں احتجاج کے دوسرے طریقوں پر غور کرنا چاہیے۔

نیٹو کے لیے معاملات مشکلات بنانا ایک طرف، اس ناکہ بندی سے خود پاک ۔ افغان تجارت کے لیے رکاوٹیں کھڑی ہورہی ہیں۔

کسٹم ایجنٹس نے مال بردار ٹرکوں کو سیکیورٹی فراہم کرنے کا مطالبہ کرتے ہوئے شکایت کی ہے کہ معمول کے مطابق سامان کی ترسیل کو بھی روکا جارہا ہے۔

تحریکِ انصاف نے اس ضمن میں جو طریقے اختیار کیے ہیں وہ ایک طرف، حقیقت تو یہ ہے کہ ڈرون حملوں کا مسئلہ اسلام آباد کی پالیسی کے لیے ایک دردِ سر بن چکا ہے۔

اگرچہ انسانی حقوق کی تنظیموں کی طرف سے، عالمی سطح پر ان حملوں کے خلاف تنقید کی شرح تیزی سے بڑھ رہی ہے لیکن ساتھ ہی پاکستان کا مقبول مزاج بھی وسیع پیمانے پر ڈرون حملوں کا مخالف ہورہا ہے۔

لہٰذا، ڈرون حملوں کا معاملہ بحث کے لیے سڑکوں پر چھوڑدینے کے بجائے، یہ حکومتِ پاکستان کی ذمہ داری ہے کہ وہ ان مسائل کو امریکا کے ساتھ اٹھائے اور یہ اس طرح حل کیے جائیں جن سے پاکستان کی خودمختاری پر کوئی حرف نہ آتا ہو۔ ساتھ ہی معصوم شہریوں کی زندگیوں کو خطرے میں ڈالے بغیر عسکریت پسندی کا مقابلہ کیا جائے۔

انگریزی میں پڑھیں۔

ڈان اخبار

کارٹون

کارٹون : 22 نومبر 2024
کارٹون : 21 نومبر 2024