”خیبرپختونخوا کی موجودہ صورتحال زیادہ عرصے قائم نہیں رہے گی“
واشنگٹن: امریکی محکمہ خارجہ نے بدھ چار نومبر کو اپنے بیان میں کہا ہے کہ امریکا افغانستان سے اپنے فوجی سازوسامان نکالنے کے لیے پاکستانی سرزمین کے راستوں کے استعمال کے حق میں ہے، اور اس امید کا اظہار کیا کہ پاک افغان سرحد پر طورخم کے راستے کے حوالے سے خیبر پختونخوا میں موجودہ صورتحال کا طویل مدت تک اثر قائم نہیں رہے گا۔
امریکی محکمہ خارجہ کی نائب ترجمان میری ہارف نے روزانہ کی بریفنگ میں کہا کہ ”ہم پاکستان کے راستے اپنے سامان کی ترسیل کی حمایت کرتے ہیں، اس لیے کہ اس راستے سے اخراجات کم ہیں۔اور ہمیں قوی امید ہے کہ موجودہ صورتحال جس کی وجہ سے ہم نے اپنے سامان کی ترسیل روک دی ہے، یہ زیادہ عرصے تک قائم نہیں رہے گی۔“
امریکی فوجی سازوسامان کی نقل وحمل کے لیے پاکستان کے زمینی راستوں کی پیش رفت کے بارے میں ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ چاروں اطراف خشکی سے گھرے ہوئے ملک افغانستان سے 2014ء کے انخلاء کے تناظر میں طورخم کے راستے سامان کی ترسیل کی معطلی کا حالیہ اقدام عارضی نوعیت کا ہے۔
پینٹاگون نے منگل تین دسمبر کو کہا تھا کہ وہ خیبر پختونخوا میں طورخم کے راستے اپنے سامان کی نقل و حمل کو ازخود روک رہا ہے، جہاں پاکستان تحریک انصاف کے کارکن امریکی ڈرون حملوں کے خلاف احتجاج کررہے ہیں، اور اس صوبے سے کراچی کی بندرگاہ تک سامان کی واپسی کے عمل کو روکنے کی دھمکی دے رہے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ اس وقت امریکا طورخم کے راستے سامان کی ترسیل کے قابل نہیں ہے، اس لیے کہ وہ نہیں سمجھتا کہ ڈرائیوروں کے لیے ان کا کام محفوظ ہے۔
ایک سوال کے جواب میں انہوں نے واضح کیا کہ امریکا فضائی و بحری راستوں، اور زمینی ٹرانسپورٹ کو استعمال میں لانے کے لیے اپنے مجموعی نظام کو بہتر بنانے پر کام کررہا ہے، اس لیے بعض اوقات ایسے واقعات رونما ہوجاتے ہیں کہ کوئی مخصوص راستہ استعمال کے قابل نہیں رہتا۔
ایک دوسرے سوال کے جواب میں امریکی محکمہ خارجہ کی ترجمان نے کہا کہ امریکا کے خصوصی نمائندے جیمز ڈوبز افغانستان کا دورہ کررہے ہیں، جو ان کی باضابطہ علاقائی مشاورت کا حصہ ہے۔
میری ہارف نے کہا کہ ان کی بات چیت 2014ء میں ہونے والے افغانستان کے صدارتی انتخابات کے ساتھ ساتھ پاکستانی وزیراعظم نواز شریف کے دورہ کابل پر ہونے والی مشاورت پر مرکوز رہے گی۔
انہوں نے واضح کیا کہ امریکا اور افغانستان کا دوطرفہ سیکیورٹی کا معاہدہ بھی اس بات چیت کا حصہ ہوگا، اور امریکا جلد از جلد اس معاہدے پر دستخط کرنے کے لیے کابل کی حوصلہ افزائی کرے گا۔