اسٹریس نہ لیں۔ پر کیسے؟
اسٹریس یعنی ذہنی دباؤ صحتِ انسانی کا خطرناک دشمن ہے اور المیہ یہ ہے کہ دور حاضر کا ہر انسان کسی نہ حوالے سے اس کا شکار ہے۔ اسٹریس یا ذہنی دباؤ کا لفظ عموماََ ہم اس وقت استعمال کرتے ہیں جب ہم مختلف وجوہات کی بنا پر تناؤ اور پریشانی کا کا شکار ہوتے ہیں۔
اسٹریس ایک قسم کی منفی قوت ہوتی ہے جس سے ہمارا جسم متاثر ہوتا ہے، جبکہ اس کے محرکات بیرونی ہوتے ہیں۔ یہ اسباب طویل مدت کے بھی ہوسکتے ہیں، جیسے بے روزگاری، خانگی مسائل، مستقبل کی فکر وغیرہ، اور مختصر دورانیے کے بھی، جیسے ٹریفک میں پھنس جانا یا کسی جگہ مقررہ وقت پر نہ پہنچ سکنا۔
اسٹریس ہر وقت برا نہیں ہوتا بلکہ بعض اوقات مثبت اسٹریس کسی بھی کام کو بروقت کرنے کے لیے اہم ہے، جیسے کسی طالب علم کے لیے امتحان کی تیاری۔ اسٹریس یا ذہنی دباؤ اس وقت مسئلہ بنتا ہے جب وہ دائمی اور لمبے عرصے کے لیے ہو اور اسے اپنے آپ پر حاوی کرلیا جائے جس سے جسم انسانی کی کارکردگی بہت متاثر ہوتی ہے۔
یہی اسٹریس بعد میں بے چینی (anxiety) بن جاتا ہے، جو بڑھ کر ڈپریشن تک جاسکتا ہے۔ اسٹریس پھر distress کی شکل بھی اختیار کرلیتا ہے۔ کسی متوقع خطرے، یا حادثے کا خوف اور پریشانی، اور ماضی میں ہونے والے کسی ناخوشگوار واقعے سے پیدا ہونے والی صورت حال بھی ذہنی دباؤ کا سبب بن جاتی ہے۔ اپنے آپ کو ناکام سمجھنا اور مطلوبہ نتائج نہ ملنا، پریشان رہنا، منفی خیالات، خود اعتمادی اور بروقت فیصلے کی کمی جیسی صورت حال ظاہر ہوتی ہے۔
پڑھیے: ڈپریشن کی چند عام علامات
اسٹریس سے انسانی جسم پر بہت نقصان دہ اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ جب بھی ہمیں کوئی ذہنی دباؤ ہوتا ہے تو ہمارا جسم اس چیلنج سے نمٹنے کی کوشش کرتا ہے، اور اس کے لیے جسم کے اعصابی اور ہارمون کے نظام کو اضافی کام کرنا پڑتا ہے۔ ذہنی دباؤ کے رد عمل میں انسانی دماغ جسم کو مخصوص ہارمون خارج کرنے کے احکامات دیتا ہے تاکہ اسٹریس کے اثرات کو زائل کیا جاسکے۔ ظاہر ہے کہ یہ جسمِ انسانی پر ایک ہنگامی اور غیر معمولی بوجھ ہوتا ہے جس سے وہ عہدہ براہ ہونے کی کوشش کرتا ہے۔ اس صورت حال میں انسولین، ایڈرینالین اور دوسرے خاص ہارمون دورانِ خون میں شامل ہو کر حالات کو معمول پر لانے کی کوشش کرتے ہیں۔
اس ساری صورت حال کی وجہ سے اعصابی نظام متاثر ہوتا ہے۔ خون کا دباؤ اور دل کی دھڑکن بڑھ جاتی ہے، اور جسم کا میٹا بولزم متاثر ہوتا ہے۔ سانس تیز ہوجاتی ہے اور بعض صورتوں میں ہاتھوں میں سوئیاں چبھتی محسوس ہوتی ہیں اور متاثرہ شخص سمجھتا ہے کہ وہ بے ہوش ہونے لگا ہے۔ سر درد، پٹھوں کا کھنچاؤ اور کچھ لوگوں کو منہ کے چھالوں کی تکلیف ہوجاتی ہے۔ پژمردگی کا دورہ پڑ سکتا ہے اور کوئی کام کرنے کو جی نہیں چاہتا۔ جسمانی مدافعتی نظام بری طرح متاثر ہوتا ہے اور جلدی انفیکشن ہونے لگتا ہے۔ جدید تحقیق سے یہ بھی سامنے آیا ہے کہ اسٹریس سے وراثتی مادے ڈی این اے کو بھی نقصان پہنچتا ہے۔
اسٹریس کا مقابلہ کرنے کے لیے سب سے پہلے کاغذ اور قلم اٹھائیے اوران محرکات کی فہرست بنائیں جو آپ کے خیال میں ذہنی دباؤ کا سبب ہیں تاکہ ان سے نمٹا جاسکے۔ کسی انجانے خوف اور خوامخواہ کے وسوسوں کو ذہن سے نکال دیں۔ ہر وقت منفی اور نقصان دہ نتائج نہ سوچیں۔ کیا ایسا ضروری ہے کہ آپ کو ناکامی ہی ہو؟ کامیابی بھی تو ہو سکتی ہے، نتیجہ آپ کے حق میں بھی آسکتا ہے۔ لیکن اگر خوف کو پہلے ہی حاوی کر لیا جائے گا، تو کامیابی کے لیے بھرپور طریقے سے کوشش بھی نہیں کر سکیں گے۔ اس لیے ابھی سے پریشان نہ ہوں، جب مشکل آئے گی تو دیکھا جائے گا۔ کامیابیاں اور ناکامیاں زندگی کا حصہ ہیں۔ اپنی کمزوریوں اور ناکامیوں کا ہر وقت رونا نہ روئیں بلکہ اپنی کامیابیوں کی بھی ایک فہرست بنائیں اور پژمردگی کے وقت اس پر نگاہ ڈالیں۔۔
مزید پڑھیے: بُری یادیں مٹانے کا کامیاب تجربہ
اپنا ایک Satisfaction Model بنائیں کہ آپ کے لیے کیا کیا چیزیں بہت اہم اور ضروری ہیں۔ اب یہ دیکھیں کہ آپ نے اس میں سے کتنا حاصل کر لیا ہے۔ اپنے آپ پر فخر کریں اور اپنی قسمت پر مطمئن رہیں۔ آپ نے اپنے ذہنی دباؤ کی جو فہرست بنائی اس پر بار بار غور کریں۔ ممکن ہے کہ بہت سے وسوسے آپ نے جان بوجھ کر پال لیے ہوں اور وہ آپ کے لیے اتنے اہم نہ ہوں؟ آہستہ آہستہ انہیں ان پر قابو پا کر اپنی فہرست سے نکال دیں۔ انسان کی ضرورت ایک وقت میں دو روٹیاں اور سونے کے لیے ایک بستر ہے، باقی سب ہم نے غیر ضروری فہرست بنا رکھی ہے جس کے پیچھے پوری عمر بھاگتے رہتے ہیں، لیکن ممکن ہے کہ انہیں کبھی استعمال بھی نہ کرتے ہوں۔
آپ اپنی پوری کوشش کے بعد نتائج اپنے رب پر چھوڑ دیں جس کا وعدہ ہے کہ وہ کسی کی بھی محنت ضائع کرتا۔ ممکن ہے جو کچھ آپ کو نہیں مل رہا اسی میں آپ کی بہتری ہو؟ اپنے اچھے دوست سے حالِ دل کہیں، گھر کے کسی فرد سے اس بارے میں بات کریں، اور اپنے آپ سے بھی مشورہ کریں۔ آپ اکیلے نہیں جواس صورت حال سے دوچار ہیں۔ دنیا میں لاکھوں لوگ آپ کی طرح ہوں گے۔ یہ سوچیں کہ زیادہ سے زیادہ کیا ہوجائے گا۔ آپ دیکھیں گے کہ پریشانی کم ہوتی جائے گی اور آپ ذہنی دباؤ سے نکلتے جائیں گے۔
آپ پر سب سے زیادہ حق آپ کا اپنا ہے۔ اگر آپ کی صحت اچھی ہوگی تو کام کرسکیں گے اور اپنے گھر والوں کی ضروریات پوری کرسکیں گے۔ اس لیے سب سے زیادہ توجہ اپنے آپ پر دیں۔ اپنی خوراک، آرام، اور سکون کا خود خیال کریں۔ ورزش اور چہل قدمی کے لیے وقت ضرور نکالیں۔
جانیے: ذہنی تناﺅ سے بچاﺅ میں مدد دینے والی 10 غذائیں
اللہ کے ذکر سے ہی دلوں کو سکون ملتا ہے۔ اللہ کے بندوں کو خوف اور غم نہیں ہوتا تو ذہنی دباؤ اور پریشانی آپ کا مقدر کیوں ہو؟ اپنا تعلق اپنے رب کے ساتھ جوڑیں۔ اللہ نے حضور ﷺ کی زندگی کو ہمارے لیے بہترین نمونہ قرار دیا ہے۔ کون سا ایسا دکھ اور غم ہے جو حضور ﷺ نے اپنی اس دنیاوی زندگی میں نہیں اٹھایا؟ ان کے اسوہ حسنہ کو سامنے رکھتے ہوئے اپنا سفرِ زندگی بسر کرنا چاہیے۔ دنیا کی فکر میں اپنے آپ کو پریشان نہ کریں جو اس کا مالک ہے۔ وہ اس کے راز بہتر جانتا ہے آپ حکیم الامت علامہ اقبال کا یہ پیغام مد نظر رکھیں کہ:
اگر کج رو ہیں انجم، آسماں تیرا ہے یا میرا؟
مجھے فکر جہاں کیوں ہو، جہاں تیرا ہے یا میرا؟
تبصرے (17) بند ہیں