اہم وزارتوں کی سائنسی طریقے سے نگرانی کی جائے: وزیراعظم
اسلام آباد: مسلم لیگ ن کی حکومت کے پچھلے چند مہینوں کے دوران یکے بعد دیگرے بحران سے دوچار ہونے کے بعد وزیراعظم نواز شریف چاہتے ہیں کہ اہم وزارتوں کی ’’سائنسی نگرانی‘‘ کی جائے۔
اگرچہ اتوار کو جاری کیے جانے والے ایک سرکاری بیان میں اس بات کا کوئی ذکر نہیں کیا گیا کہ ان وزارتوں کی باریکی سے جانچ پڑتال کی جائے گی۔
واضح رہے کہ ان میں پانی و بجلی، پٹرولیم، خزانہ اور منصوبہ بندی کمیشن کی وزارتیں شامل ہیں، جو پٹرول کے حالیہ بحران اوربجلی کےمتعد بریک ڈاؤن کی وجہ سے خبروں میں رہیں، ان کی نئے سرے سے جانچ پڑتال کا امکان ہے۔
ایک اخباری بیان کے مطابق وزیراعظم نے اپنے آفس میں ایک مصرف دن گزارا، انہوں نے مقامی مارکیٹوں کے خود وزٹ بھی کیے تاکہ یہ جان سکیں کہ کیا تیل کی قیمتوں میں کمی کے اثرات نچلی سطح تک منتقل ہوئے ہیں یا نہیں۔
سہہ پہر کے بعد وزیراعظم نے ایک طویل اجلاس کی صدارت کی، جس میں اہم وفاقی وزارتوں کے کاموں پر گہری نظر رکھنے کے لیے جانچ پڑتال کے طریقہ کار پر بحث کی گئی۔
بیان میں کہا گیا ہے ’’اس اجلاس میں فیصلہ کیا گیا کہ وزیراعظم کے آفس میں ایک تشخیص، نگرانی اور حوالگی سیل فوری طور پر قائم کیا جائے گا، تاکہ اہم وزارتوں کے کاموں پر نظر رکھی جاسکے۔‘‘
اس اجلاس کے دوران ’’حکومت کے اصلاحاتی ایجنڈے‘‘ کے ابہام نے بھی وزیراعظم کی توجہ اپنی جانب مبذول کروالی۔
واضح رہے کہ عام طور پر وزیراعظم اپنا ویک اینڈ لاہور میں اپنی والدہ کے ساتھ رائے ونڈپر اپنی رہائشگاہ میں گزارتے ہیں۔ تاہم حال ہی میں ان کی والدہ میڈیکل چیک اپ کے لیے بیرون ملک گئی ہیں، چنانچہ وزیراعظم کو اپنا یہ ویک اینڈ فری ملا، ہوسکتا ہے کہ اسی وجہ سے وہ اسلام آباد میں پھنس کر رہ گئے ہوں۔
اس سلسلے میں نگرانی کے اس سیل کا اجلاس پیر کو منعقد ہوگا، جس میں سول سروس کی اصلاحات سے متعلق معاملات کے ساتھ ساتھ سرکاری اداروں کی جانب سے خدمات کی فراہمی میں بہتری پر تبادلہ خیال کیا جائے گا۔
حکومتی بیان کے متن سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ حالیہ شرمندگیوں نے وزیراعظم اور ان کے مشیروں کو حکومت چلانے کے حوالے سے مزید مضبوط نکتہ نظر اختیار کرنے پر مجبور کردیا ہے ۔
لیکن حکومت کے ناقدین مختلف نکتہ نظر رکھتے ہیں۔
اسلام آباد: اتوار کے روز آبپارہ مارکیٹ میں وزیراعظم نواز شریف کے وزٹ کے دوران ایک خاتون ان سے بات کررہی ہیں۔ وزیراعظم دارالحکومت کی دو مارکیٹوں کے اچانک دورے کیے، تاکہ خوردنی اشیاء کی قیمتوں کا ازخود جائزہ لے سکیں۔ ایک دکاندار نے انہیں بتایا کہ آلو تیس روپے، ٹماٹر ستّر روپے، گاجر تیس روپے، پیاز تیس روپے اور گوبھی پچیس روپے فی کلو کی قیمتوں پر فروخت کی جارہی ہیں۔ کچھ شہریوں اور تاجروں نے کہا کہ پچھلے چند مہینوں کے دوران قیمتیں کم ہوئی تھیں۔ ایک سرکاری ملازم نے شکایت کی کہ اگرچہ پٹرول کی قیمتوں میں کمی آئی ہے، لیکن ٹرانسپورٹ کے کرائے کم نہیں ہوئے ہیں۔ —. فوٹو آن لائن |
پیپلزپارٹی کے سابق وفاقی وزیر نے ڈان کو ایک آف دی ریکارڈ بات چیت کے دوران ڈان کو بتایا’’اگر ایک ایسے فرد جنہوں نے تیسری مرتبہ وزیراعظم کا عہدہ سنبھالا ہے اور جنہیں پنجاب کو بطور وزیراعلٰی چلانے کا بھی تجربہ ہے، انہیں اپنی وزارتوں کی نگرانی کے لیے اس طرح کے سطحی اقدامات کی ضرورت پڑ رہی ہے تو کوئی بھی تصور کرسکتا ہے کہ وفاقی کابینہ کس طرح بےربط ہوگی۔‘‘
پی پی کے رہنما نے سوال کیا ’’وفاقی وزارتوں کے آڈٹ کا کیا ہوا، جو وزیراعظم نے پچھلے سال نومبر میں کروایا تھا؟ کیا انہوں نے اس وقت ناکام وزیروں کے خلاف کوئی کارروائی کی، جیسا کہ انہوں نے متعدد مواقع پر کہا تھا کہ وہ یہ کارروائی کریں گے۔‘‘
نومبر 2014ء کے آخری ہفتے میں وزیراعظم نے تمام وزیروں کے ساتھ اجلاس منعقد کیے تھے، اور انہوں نے پریزنٹیشن میں شرکت کی تھی، جہاں وزیراعظم کو انہوں نے اپنی کارکردگی کے بارے میں بریفنگ دی تھی۔تاہم ابتدائی ہلچل کے بعد ٹھوس اقدامات نہیں اُٹھائے گئے تھے۔
پیپلزپارٹی کے رہنما نے طنزیہ لہجے میں کہا ’’خواجہ آصف، چوہدری نثار علی خان، اسحاق ڈار، شاہد خاقان عباسی اور احسن اقبال سمیت مسلم لیگ کے پچھلے دورِ اقتدار میں بھی کابینہ کے رکن رہے تھے۔ اگر انہیں اب بھی اس بات کی ضرورت ہے کہ وزیراعظم ذاتی طور پر ان کی نگرانی کریں تو پھر ان کے باس کو نگرانی سیل قائم کرنے سے زیادہ کچھ کرنے کی ضرورت ہے۔‘‘