پاکستان کو بھرپور جواب دے دیا گیا ہے، انڈین وزیر کی ہرزہ سرائی
بھوپال: ہندوستان کے وزیرِ داخلہ راجناتھ سنگھ نے دعویٰ کیا ہے کہ پاکستان کو جنگ بندی کی خلاف ورزی پر بھرپور جواب دے دیا گیا تھا، اور انہوں نے یہ بھی کہا کہ اسلام آباد فوری طور پر کسی وقت سرحد پر امن کو متاثر کرنے کی جرأت نہیں کرے گا۔
انہوں نے کہا کہ نئی قیادت کے تحت لائن آف کنٹرول اور بین الاقوامی سرحد کی خلاف ورزی پر پاکستان کو مناسب جواب دے دیا گیا تھا۔
دوسری جانب پاکستان کا کہنا ہے کہ لائن آف کنٹرول اور ورکنگ باؤنڈری پر جاری کشیدگی کا ذمہ دار پاکستان کو نہیں ٹھہرایا جاسکتا ہے۔ پاکستان صرف جوابی کارروائی کررہا ہے جس میں بھی ذمہ داری کا مظاہرہ کیا جارہا ہے۔
بھارتیہ جنتا پارٹی(بی جے پی) کے کارکنوں کے ایک کنونشن سے خطاب کرتے ہوئے راجناتھ سنگھ نے کہا کہ ’’اب شاید جلدی پاکستان ہمت نہیں کرے گا۔‘‘
ہندوستانی وزیر کا کہنا تھا کہ پاکستانی فورسز نے سرحد پر گولہ باری اور فائرنگ کرکے پانچ افراد کو ہلاک کردیا تھا۔
راجناتھ سنگھ نے کہا کہ ’’میں نے یہ معاملہ متعلقہ ڈائریکٹر جنرل کے سامنے اُٹھایا تھا اور ان سے کہا تھا کہ سرحد پر یہ کیا ہورہا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ ہم نے سفید پر چم اپنی پالیسی کے تحت 16 مرتبہ لہرایا تھا۔ میں نے ان سے کہا کہ آپ سترہویں مرتبہ پرچم نہیں لہرائیں گے۔ اس کے بعد ہماری فورسز نے انہیں بھرپور جواب دیا۔‘‘
اگر ہندوستانی وزراء کے بیانات، نیوز چینلز، اخبارات اور ویب سائٹس کی رپورٹوں کا جائزہ لیا جائے تو ان سب میں تمام تر ذمہ داری پاکستان کے ہی سر ڈالی جاتی ہے۔
تاہم دونوں ممالک کے فوجی افسران اور نئی دہلی میں حکام کا کہنا ہے کہ وزیراعظم نریندرا مودی کی قیادت میں ہندوستانی سیاست کے باعث معاملات اتنے سنگین ہوگئے تھے کہ پاکستان، ہندوستان سرحدوں پر کشیدگی میں اضافہ ہوگیا۔
مزید ملاحظہ کیجیے: ’ہندوستان ہمیں سبق سکھانا چاہتا ہے‘
ہندوستانی وزیرِ داخلہ کا کہنا ہے کہ ہندوستانی فورسز کے بھرپورجواب کے نتیجے میں پاکستان اس مطالبے کے ساتھ اقوامِ متحدہ میں پہنچ گیا کہ ہندوستان کو جنگ بندی کے معاملے پر فوری طور پر مذاکرات کرنا چاہیے۔
انہوں نے کہا کہ ہندوستان کی طویل عرصے سے یہ سفارتی پالیسی رہی ہے کہ ہم اپنے تمام پڑوسیوں کے ساتھ پُرامن تعلقات چاہتے ہیں۔
’’لیکن اگر کوئی ہمیں بار بار مشتعل کرتا رہے تو پھر اس کو برداشت کرنے کی ایک حد ہوتی ہے۔‘‘
انہوں نے کہا کہ جب سے نریندرا مودی نے مئی میں وزیراعظم کا عہدہ سنبھالا ہے، بین الاقوامی سطح پر ہندوستان کے مقام میں بہتری آئی ہے۔
واضح رہے کہ پاکستانی دفترخارجہ نے بارہا یہ بیان دیا ہے کہ پاکستان ہندوستان کے ساتھ مسائل کا مذاکرات کے ذریعے حل چاہتا ہے، لیکن ہندوستانی حکومت مذاکرات کی میز پر نہیں آنا چاہتی ہے اسی لیے اس نے سیکریٹری خارجہ سطح کے مذاکرات کو منسوخ کیا۔
یاد رہے کہ اس کشیدگی کے باعث اب تک دونوں اطراف سے درجنوں انسانی جانیں ضایع اور 43 سے زائد افراد زخمی ہو چکے ہیں، جبکہ املاک اور مویشیوں کا نقصان الگ ہے۔
دراصل حقیقت یہ ہے کہ رواں سال مئی میں اپنی انتخابی فتح کے بعد سے ہندوستانی وزیراعظم نریندر مودی ملٹری کمانڈروں کی سرحد کے نزدیک گشت کے لیے حوصلہ افزائی کررہے ہیں اور انہوں نے حملے کی صورت میں زیادہ طاقت سے ساتھ جواب دینے کی بھی ہدایات کی ہیں۔
نئی دہلی کی جانب سے یہ بات پہلے ہی کہی جاچکی ہے کہ پاکستان کے ساتھ اس وقت تک بات نہیں ہوسکتی جب تک سرحدی خلاف ورزی اور عسکریت پسندوں کی ہندوستان کے زیر انتظام کشمیر میں مداخلت بند نہیں ہوجاتی۔
عالمی خبر رساں ادارے رائٹرز کی ایک رپورٹ میں یہ بات سامنے آچکی ہے کہ ہندستان اس معاملے میں اپنی خودسری کو قائم رکھنا چاہتا ہے۔ رائٹرز کے مطابق ہندوستانی وزارت داخلہ میں ایک افسر کا کہنا ہے کہ ہمارے باسز چاہتے ہیں کہ ہم پاکستان کے خلاف سخت مؤقف اختیار کریں جو کہ پچھلی حکومتوں سے مختلف بات ہے۔
جبکہ پاکستانی رہنماؤں کا کہنا ہے کہ انہیں بھی ہندوستانی فورسز کی جارحانہ حکمت عملی پر حیرت ہے۔ ایک ایسے موقع پر جب پاکستانی فوج قبائلی علاقوں میں لڑائی میں مصروف ہے، اپنی مشرقی سرحدوں پر ہندوستان کے خلاف مشغول نہیں ہونا چاہتی۔
سرحد پر مامور ایک سینئر پاکستانی فوجی افسر کا کہنا ہے کہ ہندوستان جان بوجھ کر پاکستانی سیکورٹی فورسز پر دباؤ ڈال رہا ہے تاکہ ایک نیا محاذ کھل جائے۔
ہندوستانی وزیراعظم نریندرا مودی پاکستان کے خلاف ایک اشتعال انگیز بیان میں کہا تھا کہ ’گولے پاکستان پر بارش کی طرح برسیں گے۔‘
مزید ملاحظہ کیجیے: گولے پاکستان پر بارش کی طرح برسیں گے: نریندرا مودی
یاد رہے کہ تقسیم ہند کے بعد سے دونوں ممالک کے درمیان تین جنگیں لڑی جاچکی ہے جبکہ متعدد بار چھوٹی جھڑپیں بھی ہوتی رہی ہیں تاہم 1998ء میں دونوں ممالک کی جانب سے نیوکلئیر ہتھیاروں کے ٹیسٹ کے بعد سے کوئی جنگ نہیں ہوئی۔
حالیہ چند ہفتوں کے دوران ہندوستان کی جانب سے پاکستانی سرحدی علاقے میں فائرنگ کے واقعات میں اضافہ دیکھنے میں آیا ہے اور متعدد بار دونوں ملکوں کے درمیان سیز فائر معاہدے کی خلاف ورزی کی گئی ہے۔