ایران کے ساتھ بیک چینل مذاکرات کا راستہ کھلا ہے: امریکا
واشنگٹن: امریکا نے پیر کو کہا ہے کہ اس نے ایران کے ساتھ مشرق وسطیٰ کی صورتحال پر بیک چینل مذاکرات کا راستہ کھلا رکھا ہے، لیکن ساتھ ہی یہ بھی کہا کہ ایران کے ساتھ کوئی فوجی تعاون نہیں کیا جائے گا۔
اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ کی ایک نیوز بریفنگ کے دوران نائب ترجمان میری ہاف نے کہا کہ امریکا نے ایران سمیت ہر ایک ملک سے عراق میں ایک جامع حکومت کی حمایت کے لیے کہا تھا۔
انہوں نے بتایا ’’لیکن ہم نے نہایت واضح طور پر کہا ہے کہ ہم ان کے ساتھ فوجی تعاون کرنے نہیں جارہے ہیں، ہم اپنے پلان یا انٹیلی جنس کا اشتراک ان کے ساتھ نہیں کریں گے۔‘‘
تاہم انہوں نے کہا کہ امریکا شام میں بشارالاسد کی حکومت کے ساتھ بیک چینل مذاکرت بھی نہیں کرے گا، اس لیے کہ اس کا کوئی جواز موجود نہیں ۔
جب ان سے پوچھا گیا کہ کیا امریکا نے عراق کو فراہم کی جانے والی ایران کی فوجی امداد کو منظور کرلیا ہے، تو میری ہاف نے کہا ’’عراقی حکومت کو دی جانے والی کسی بھی امداد کو چینل کے ذریعے جانے کی ضرورت ہے۔(اگر ایسا کیا جاتا ہے) ایسا کچھ ہوتا ہے تو ہم اس کو اچھی نظر سے دیکھیں گے۔‘‘
انہوں نے یہ بھی تسلیم کیا کہ ایرانیوں کا عراق میں واضح اثرورسوخ موجود ہے۔
میری ہاف نے اصرار کیا کہ شام پر بین الاقوامی کانفرنس میں ایران کی شرکت مناسب نہیں تھی، یہ کانفرنس پیر کے روز پیرس میں پیر کے روز شروع ہوئی ہے۔
انہوں نے کہا ’’اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ وہ مستقبل میں وسیع مذاکرات میں شرکت نہیں کرسکتے۔‘‘
انہوں نے کہا کہ امریکی حکام مشرقِ وسطیٰ کی صورتحال پر ایرانیوں کے ساتھ جمعرات کو تبادلۂ خیال کرسکتے ہیں، جب وہ نیویارک میں اپنے نیوکلیئر پروگرام پر پی-8+1 گروپ کے ساتھ مذاکرات کرنے کے لیے آئیں گے۔
جب ایک صحافی نے میری ہاف سےسوال کیا کہ کیا وجہ ہے کہ واشنگٹن ایران کے ساتھ تو مذاکرات کے لیے تیار ہے، لیکن شام کی حکومت کے ساتھ تیار نہیں ہے، تو انہوں نے کہا ’’میں ان کا ایران کے ساتھ موازنہ نہیں کروں گی۔‘‘
ایران کے ساتھ بات چیت کا دفاع کرتے ہوئے انہوں نے کہا ’’ایران نے آئی ایس کے خطرے کو تسلیم کیا ہے اور اس کا عوامی سطح پر اظہار بھی کیا ہے۔‘‘
اس سے پہلے پیر کو امریکا کے سیکریٹری آف اسٹیٹ جان کیری نے پیرس میں صحافیوں کو بتایا تھا کہ اوباما انتظامیہ نے ایران کے ساتھ خفیہ رابطوں کا راستہ کھلا رکھا ہے۔
اسلام اسٹیٹ کے عسکریت پسند گروہ کے خطرے سے نمٹنے کے لیے ایک بین الاقوامی اجتماع سے قبل عالمی رہنماء ایک دوسرے سے ملاقات کررہے ہیں۔ —. فوٹو اے پی |
اسی دوران نیویارک ٹائمز نے پیر کے یہ رپورٹ دی تھی کہ امریکا نے اپنے قریبی عرب اتحادیوں کے مشورے پر شام پر ہونے والی پیرس کانفرنس سے باہر رکھنے کا فیصلہ کیا۔
اس رپورٹ کا کہنا ہے کہ سعودی عرب کے کنگ عبداللہ اور متحدہ عرب امارات کے اعلٰی سطح کے حکام نے واشنگٹن کو مطلع کیا تھا کہ اگر پیرس کے اجلاس میں ایران موجود ہوا تو وہ اس میں شرکت نہیں کریں گے۔
واضح رہے کہ تیس سے زائد ممالک کے نمائندے پیر کے روز پیرس میں اسلامک اسٹیٹ گروپ کے عسکریت پسندوں کی طرف سے درپیش خطرے پر عالمی ردّعمل پر غور کرنے کے لیے اکھٹا ہوئے تھے۔
ان رہنماؤں نے جہادیوں سے مقابلہ کرنے کے لیے عراق کی ہر ممکن طریقے سے مدد کرنے کا وعدہ کیا، اس میں فوجی امداد بھی شامل ہے۔
سیکریٹری اسٹیٹ جان کیری کا کہنا تھا کہ ایران کو پیرس کانفرنس سے باہر رکھنے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ ہم رابطوں کی تلاش کے تصور کی مخالفت کرتے ہیں، اگر حالات یا کسی تبدیلی کے امکان کے تحت وہ مذاکرات کی میز پر تحت آتے ہیں۔‘‘
انہوں نے کہا کہ دنیا میں سب سے بڑے مسئلوں میں سے ایک پر رابطوں کے ایک چینل کا ہونا آج عام سی بات ہے۔‘‘
واشنگٹن میں ایوان کے اکثریتی لیڈر کیون میک کارتھی نے اراکین سے کہا کہ وہ شام میں امریکا کی متوقع فوجی کارروائی پر منگل کی ابتداء میں ایک قرارداد پیش کریں۔
انہوں نے کہا ’’یہ ایک خطرہ ہے، اور ایوان امریکیوں کی طرح کردار ادا کرے گا۔‘‘
سینیٹ میں جہاں ڈیموکریٹک پارٹی کا غلبہ ہے، اکثریتی رہنما ہیری ریڈ نے بھی اس مسئلے پر ووٹ دینے کا مطالبہ کیا ہے۔