صلاح مشورہ جاری، لیکن مارچ ضرور ہوگا
اسلام آباد: سیاسی تناؤ کو دور کرنے کے لیے دارالحکومت میں جمعہ کے روز بھی بیک چینل مصالحتی کوششیں جاری رہیں، تاہم پاکستان تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان نے واضح کردیا کہ ان کی پارٹی ’آزادی مارچ‘ کے لیے ہر ممکن طریقے سے آگے بڑھے گی۔
لیکن اس کے ساتھ ہی انہوں نے خبردار کیا کہ اگر حکومت نے اپنی اصلاح نہیں کی تو ممکنہ فوجی مداخلت کی ذمہ داری نواز شریف پر عائد ہوگی۔
کرکٹ کے پُرجوش کھلاڑی سے سیاسی میدان میں قدم رکھنے والے عمران خان نے کل جہاں ایک پریس کانفرنس کے دوران یومِ آزادی کے لیے اپنی پارٹی کے احتجاجی منصوبہ پیش کیا، وہیں پیپلزپارٹی، جماعت اسلامی اور حکمران جماعت مسلم لیگ نون کے رہنماؤں نے اس مقصد کے تحت اپنی مصالحتی کوششیں بھی جاری رکھیں، کہ ملک کو موجودہ سیاسی بحران سے باہر نکالا جائے اور اس کا ایک پُرامن حل تلاش کیا جائے۔
لیکن جمعہ کے روز کی ملاقاتوں میں اس طرح کا اضطراب موجود نہیں تھا، جیسا کہ اس ہفتے کی ابتداء میں پایا گیا تھا۔
صلاح مشورہ جاری
دونوں جماعتوں کے مابین درمیانی راستے کی تلاش کے لیے جاری کوششوں کے ایک حصے کے طور پر جماعت اسلامی کے سیکریٹری جنرل لیاقت بلوچ نے وزیرِداخلہ چوہدری نثار علی خان اور ریلوے کے وزیر خواجہ سعد رفیق سے ملاقات کی۔
اپنے بیان میں لیاقت بلوچ نے ان ملاقاتوں کے دوران کی گئی بات چیت کے بارے میں زیادہ کچھ ظاہر نہیں کیا۔
تاہم انہوں نے کہا کہ وہ عمران خان کے ساتھ تبادلۂ خیال کریں گے، اور دیگر متعلقہ رہنماؤں سے بھی بات چیت کریں گے جو پی ٹی آئی اور حکومت کے درمیان پیدا شدہ تعطل کا ایک پُرامن حل تلاش کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔
جماعت اسلامی کے رہنما نے دونوں فریقین کو خبردار کیا کہ وہ اس وقت حد سے باہر نکل رہے تھے، اور انہوں نے اس بحران سے باہر نکلنے کے لیے ایک پائیدار حل تلاش کرنے کی کوششوں کو تیز کرنے پر زور دیا۔
قومی اسمبلی میں قائدِ حزبِ اختلاف سید خورشید شاہ نے بھی حکومت پر زور دیا کہ وہ یومِ آزادی پر لاہور سے اسلام آباد کو جانے والے پی ٹی آئی کے لانگ مارچ کو روکنے کی کوشش نہ کرے۔
انہوں نے کہا ’’حکومت لازماً تدبر اور فراخ دلی کا مظاہرہ کرے اور آزادی مارچ کو روکنے کی کوشش نہ کرے، اس لیے کہ سیاسی طور پر عمران خان کے لیے مارچ کی کال واپس لینا ممکن نہیں ہوگا۔‘‘
ان کے اس بیان کے چند گھنٹوں کے بعد لاہور کی سڑکوں پر ڈاکٹر طاہر القادری کی پاکستان عوامی تحریک کے کارکنان پر آنسو گیس کے گولے فائر کیے گئے اور ان پر لاٹھی چارج کیا گیا۔
میڈیا کی رپورٹوں کے مطابق بہت سے حلقے حکمران جماعت مسلم لیگ نون پر زور دے رہے تھے کہ وہ وزیراعظم نواز شریف کو تبدیل کردے۔
تاہم خورشید شاہ نے کہا کہ ’مائنس ون‘ کا فارمولہ یہاں لاگو نہیں ہوتا، اس لیے کہ کوئی بھی سیاسی جماعت اپنے سربراہ کے نکالے جانے کو برداشت نہیں کرے گی۔
خورشید شاہ جو پیپلزپارٹی کے ایک اہم رہنما ہیں، پارلیمنٹ ہاؤس میں اپنے چیمبر میں صحافیوں سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ان کی پارٹی نظام کو بچانے کے لیے کام کررہی ہے، نہ کہ حکومت کو ۔
انہوں نے کہا کہ پی ٹی آئی اور حکومت کو مذاکرات کی میز پر آنا ہی پڑے گا، چاہے لانگ مارچ کے بعد انہیں ایسا کرنا پڑے۔ ان کا کہنا تھا ’’لیکن اگر حکومت نے پی ٹی آئی کا راستہ روکا، تو وہ مذاکرات کی پوزیشن میں نہیں رہے گی۔‘‘
ڈان سے بات کرتے ہوئے پیپلزپارٹی کے ترجمان فرحت اللہ بابر نے کہا کہ ان کی پارٹی وزیراعظم نواز شریف کو برطرف کرنے کے کسی بھی غیرآئینی اقدام کی حمایت نہیں کرے گی۔
انہوں نے کہا ’’جب ہم کہتے ہیں کہ ہم آئین اور جمہوریت کا تحفظ کریں گے تو اس کا مطلب ہوتا ہے کہ ہم تمام آئینی عہدوں کا بھی تحفظ کریں گے۔‘‘
پی ٹی آئی اپنے مؤقف پر قائم
ہوسکتا ہے کہ پی ٹی آئی حکومت کے ساتھ پسِ پردہ بند دراوزے میں حکومت کے ساتھ مذاکرات کے لیے راضی ہوجائے، لیکن عوامی سطح پر وہ اپنا حکومت کی مخالفت کے سخت گیر مؤقف پر قائم رہے گی۔
عمران خان نے بنی گالہ پر ایک پریس کانفرنس کو بتایا ’’آزادی مارچ کی کال برقرار ہے، اور اب تمام فیصلے پی ٹی آئی کے ان لاکھوں کارکنان کے سامنے کیے جائیں گے، جو میرے ساتھ اسلام آباد کا سفر کریں گے۔ میں اس وقت تک وہاں پر دھرنا دوں گا، جب تک کہ حکومت ہمارے مطالبات پورے نہیں کردیتی۔‘‘
ڈاکٹر طاہر القادری اور ان کے پیروکاروں کے خلاف پولیس کے استعمال پر پنجاب پولیس کو متعدد مرتبہ تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے عمران خان نے کہا کہ ان کے لانگ مارچ کے نتیجے میں جمہوری عمل میں مارشل لاء کی مداخلت کا کوئی خطرہ نہیں تھا۔ لیکن اگر شریف برادران اسی طرح تباہی کو ہوا دیتے رہے تو اس ملک میں کچھ بھی ممکن ہوسکتا ہے۔
پی ٹی آئی کے سربراہ اس بات کی وضاحت کرتے ہوئے گلوگیر ہوگئے کہ ان کی پارٹی کی جدوجہد آئین کے دائرہ کار کی حد کے اندر رہتے ہوئے جاری رہے گی، اور یہ کہ وہ صرف ملک میں جمہوریت کو مضبوط بنانے میں مدد کرنا چاہتے ہیں۔
انہوں نے ایک بار پھر وعدہ کیا کہ وہ مسلم لیگ نون کے کہنے پر مبینہ دھاندلی کی چونکا دینے والی تفصیلات کا انکشاف کریں گے۔
عمران خان نے کہا ’’اگر ہم (پی ٹی آئی) حکومت کے خلاف اپنے دعووں (انتخابی دھاندلیوں سے متعلق) کو ثابت کرنے میں ناکام رہتے ہیں، تو میں باقاعدہ اس کی معافی مانگوں گا، دوسری صورت میں آگے بڑھنے کے لیے دوبارہ انتخابات کے انعقاد کا ہی واحد راستہ رہ جائے گا۔‘‘
پی ٹی آئی کے ایک سینئر رہنما نے ڈان سے آف دی ریکارڈ بات کرتے ہوئے کہا کہ اگرچہ جماعت اسلامی اور پیپلزپارٹی جیسی سیاسی جماعتیں دونوں فریقین سے رابطے میں ہیں، ’’ہم نے ان سے کہا ہے کہ وہ اتوار تک انتظار کریں، جب تک پی ٹی آئی کی کور کمیٹی پارٹی کے مطالبات کے حوالے سے کوئی حتمی فیصلہ کرلے گی۔‘‘
انہوں نے کہا کہ سیاست میں سیاسی جماعتیں بند دروازوں میں مذاکرات کی متحمل نہیں ہوسکتیں، اور پی ٹی آئی بامعنی مذاکرات کی مخالفت نہیں کرتی ہے۔
پریس کانفرنس میں عمران خان نے حکومت کی ایک سالہ اقتصادی کارکرگی پر ایک ’وہائٹ پیپر‘ بھی پیش کیا۔
ایک سال کے عرصے میں افرطِ زر کی شرح میں پانچ سے نو فیصد تک اضافہ ہوا، بجلی کے نرخوں میں 80 فیصد تک اضافہ کیا گیا، اور گردشی قرضوں کا عذاب اپنی حد سے دوبارہ باہر نکل گیا۔
پی ٹی آئی کے سربراہ نے حکومت کی جانب سے پیش کی گئی سالانہ شرح نمو 4.1 فیصد کو بھی مضحکہ خیز قرار دیا، جب کہ وہ حقیقت میں 3.3 فیصد تھی۔
عمران خان نے لندن میں نہایت قیمتی جائیداد کی ایک فہرست بھی فراہم کی، جس کے بارے میں ان کا دعویٰ تھا کہ یہ وزیراعظم کے بیٹے کی ملکیت ہیں۔
تاہم اس وہائٹ پیپر کے جواب میں جاری ایک سرکاری بیان میں ایک حکومتی ترجمان نے کہا کہ عمران خان کے انکشافات ’غیر مصدقہ‘ اور ’گمراہ کن‘ ہیں۔