’اسلامی نظریاتی کونسل طالبانیت کو قوت بخش رہی ہے‘
اسلام آباد: منگل کے روز ایک این جی او انصاف نیٹ ورک پاکستان، اور ایک تھنک ٹینک اسلام آباد ڈیٹا بیس کے زیراہتمام ’میڈیا، انتہاپسندی اور اسلامی روایات‘ کے عنوان سے منعقدہ ایک گول میز کانفرنس سے سینیٹر فرحت اللہ بابر نے خطاب کیا۔
فرحت اللہ بابر نے کہا کہ بدقسمتی سے اسلامی نظریاتی کونسل، طالبان کی روایات کو قوت بخش رہی ہے۔
انہوں نے کہا کہ ’’1978ء میں اسلامی نظریاتی کونسل نے سفارش کی تھی کہ پاکستان کے قومی پرچم پر ’کلمہ طیّبہ‘ تحریر ہونا چاہیٔے، اور بعد میں مجاہدین نے اس خیال کو مستعار لے لیا۔
سینیٹر فرحت اللہ بابر نے کہا کہ ’’آج میڈیا ایک بڑے حصے کو عسکریت پسندوں کی جانب سے کنٹرول کیا جارہا ہے، مولانا فضل اللہ نے اس رجحان کا آغاز کیا تھا، اور اب عسکریت پسندوں کے پچاس سے زائد اشاعتی ادارے کام کررہے ہیں۔ اس سے بھی آگے بڑھ کر ان عسکریت پسندوں نے میڈیا سے منسلک شخصیات کو دھمکیاں دینی شروع کردی ہیں، لیکن ریاست انہیں تحفظ فراہم کرنے میں ناکام ہوچکی ہے۔‘‘
انہوں نے کہا کہ ’’اب یہ روایات کی جنگ بن چکی ہے، لیکن ہم نے اسلام کی روایات کو مذہبی پیشواؤں پر چھوڑ دیا ہے۔ اسلامی نظریاتی کونسل نے سفارش کی تھی کہ جنسی زیادتی کے مقدمات میں ڈی این اے ٹیسٹ کو بنیادی ثبوت کے طور پر نہیں استعمال کیا جانا چاہیٔے اور کم سن بچیوں کی شادیوں کی اجازت ہونی چاہیٔے، لیکن سول سوسائٹی کی جانب سے اس پر اتنا مضبوط ردّعمل سامنے نہیں آیا تھا، جیسا کہ آنا چاہیٔے تھا۔‘‘
فرحت اللہ بابر نے کہا کہ بعض اوقات میڈیا انتہاءپسندی میں اضافے کے لیے کرادر ادا کرتا ہے۔ انہوں نے ایک مثال کا حوالہ دیا کہ کس طرح میڈیا کی جانب سے 2007ء میں لال مسجد آپریشن کے دوران ہلاکتوں کی تعداد کو بڑھا چڑھا کر پیش کیا گیا تھا۔
اس گول میز کانفرنس کے موڈریٹر سینیٹر افراسیاب خٹک نے کہا کہ مشرقی پاکستان کے عوام نے تحریک پاکستان میں مرکزی کردار ادا کیا تھا، اور انہوں نے بھی مارشل لاء کے خلاف مزاحمت کی تھی۔
اسلام آباد ڈیٹا بیس کے چیئرپرسن سجاد بخاری نے کہا کہ ’’میڈیا نے معاملات میں حساسیت پیدا کرکے دانستہ یا نادانستہ طور پر انتہا پسندی کے اضافے میں اپنا کردار ادا کیا ہے۔ تاہم صحافیوں کی ایک بڑی تعداد ایسی ہے جس نے انتہاپسندوں کی ہدایات کی پیروی سے انکار کے بعد اپنی جانوں کی قربانیاں تک دی ہیں۔‘‘
انہوں نے کہا کہ ’’ریاست کی غلط پالیسیوں کی وجہ سے انتہاءپسندی اس حد تک بڑھ گئی ہے کہ اس کی وجہ سے ملک کے وجود کو ہی خطرہ لاحق ہوگیا ہے۔‘‘
صحافی مظہر عباس نے کہا کہ اگرچہ لوگ مذہبی جماعتوں کو ووٹ نہیں دیتے ہیں، لیکن یہ جماعتیں اپنے کارڈ کھیل کر آزاد خیال سیاسی جماعتوں پر برتری حاصل کرلیتی ہیں۔
انہوں نے کہا کہ’’1973ء کا آئین پیپلزپارٹی کی کوششوں کا مظہر ہے، لیکن مذہبی جماعتوں نے اس کو ہائی جیک کرلیا اور ان کا دعویٰ ہے کہ یہ ان کا تشکیل کردہ ہے۔ آزاد خیال سیاسی جماعتیں ہمیشہ سے اتفاق رائے پر زور دیتی ہیں، لیکن مذہبی جماعتیں کبھی بھی اپنے مطالبات پر سمجھوتہ نہیں کرتیں۔‘‘
مظہر عباس نے کہا کہ ’’میڈیا نے سیاستدانوں کو اس بات پر قائل کرنے کی کوشش کی ہے کہ مشرقی پاکستان میں انہوں نے جو کچھ کیا، اس کو اب دوہرانا نہیں چاہیٔے۔ لیکن سیاستدانوں نے تمام مشوروں کو نظرانداز کردیا۔ آج نیوز چینلز معلوماتی تفریحی چینل بن گئے ہیں۔‘‘
صحافی رضا رومی نے کہا کہ بارہ سالوں سے زیادہ کا عرصہ گزرگیا، لیکن الیکٹرانک میڈیا کے لیے ایک معقول ضابطہ اخلاق وضع نہیں کیا جاسکا ہے، اگر کوئی ہے بھی تو اس پر عمل نہیں کیا جارہا ہے۔