پیپلزپارٹی نے ڈیڑھ ارب ڈالرز کی امداد پر حکومتی دعویٰ مسترد کردیا
اسلام آباد: حزبِ اختلاف کی مرکزی جماعت پیپلزپارٹی نے ڈیڑھ ارب ڈالرز کی سعودی امداد کے بارے میں اس وضاحت کو مسترد کردیا ہے، جس میں اس کی جانب سے کہا گیا تھا کہ یہ سعودی عرب کا پاکستان کے لیے ایک تحفہ ہے، ساتھ ہی یہ الزام بھی عائد کیا ہے کہ حکومت قوم سے حقائق چھپارہی ہے۔
منگل کے روز قومی اسمبلی میں قائدِ حزبِ اختلاف سید خورشید شاہ نے پارلیمنٹ ہاؤس میں اپنے چیمبر میں صحافیوں سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’’یہ دنیا کی تاریخ کا سب سے بڑا تحفہ ہے اور اس کو گنیز بُک آف ورلڈ ریکارڈز میں شامل کیا جانا چاہیٔے۔‘‘
انہوں نے کہا کہ ’’ایک جھوٹ چھپانے کے لیے سو مزید جھوٹ بولنے پڑتے ہیں۔‘‘ وزیراعظم نواز شریف پر انہوں نے زور دیا کہ وہ پارلیمنٹ کے اجلاس میں حقائق بیان کریں۔
خورشید شاہ نے کہا کہ مختلف حکومتی حلقوں سے متضاد بیانات سامنے آئے، جن سے اس سرکاری بیان پرپر شکوک و شبہات پیدا ہوئے کہ یہ رقم بطور تحفہ وصول کی گئی ہے۔
انہوں نے کہا کہ ایک طرف حکومت دعوی کررہی تھی کہ اس قدر بڑی رقم بطور تحفہ موصول ہوئی ہے، اور دوسری جانب ایک وزیر نے بیان دیا کہ سعودی عرب نے یہ رقم وزیراعظم کی ضمانت پر جاری کی ہے۔ ’’تحائف کبھی کسی کی ضمانت پر نہیں دیے جاتے۔‘‘
قائدِ حزبِ اختلاف نے قومی اسمبلی میں دیے گئے وزیرِ داخلہ چوہدری نثار علی خان کے اس بیان کو غیر ذمہ دارانہ اور گمراہ کن قرار دیا، جس میں انہوں نے کہا تھا کہ اس ماہ کے ابتدائی دنوں میں اسلام آباد کورٹ پر ایک دہشت گردانہ حملے کے دوران ہلاک ہونے والے ڈسٹرک اینڈ سیشن جج رفاقت اعوان اپنے ہی گارڈ کی گولی سے ہلاک ہوئے تھے۔
پیپلزپارٹی کے رہنما نے کہا کہ کورٹ پر حملے کی ایک انکوائری رپورٹ سے ظاہر ہوتا ہے کہ سیشن جج رفاقت اعوان کو ان کے گارڈ نے نہیں بلکہ دہشت گردوں نے ہلاک کیا تھا۔
انہوں نے وزیرِ داخلہ سے کہا کہ وہ وضاحت کریں کہ آخر انہوں نے اپنے اس بیان کے ذریعے کس کی مدد اور خدمت کی تھی۔ انہوں نے بالواسطہ طور پر ان کے استعفے کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا کہ ’’اب وقت آگیا ہے کہ وہ اپنی اس حرکت پر اپنے بارے میں کوئی فیصلہ کر لیں۔‘‘
چیف الیکشن کمشنر کی تقرری کے بارے میں خورشید شاہ نے کہا کہ حکومت نے ریٹائرڈ جسٹس رانا بھگوان داس کی تقرری کے لیے ان کی تجویز کو منظور کرلیا تھا، اور یہاں تک کہ ایک بل بھی قومی اسمبلی کی جانب سے پاس کردیا گیا تھا، لیکن کچھ غلط فہمی کی وجہ سے یہ بل جب سینیٹ میں گیا تو اس کو ایک کمیٹی کے حوالے کردیا گیا۔
سید خورشید شاہ نے کہا کہ انہوں نے حکومت سے کہا تھا کہ وہ یا تو اس بل پر کمیٹی کی رپورٹ کا انتظار کرے یا پھر چیف الیکشن کمشنر کے عہدے کے لیے تین نئے نام تجویز کرے۔ انہوں نے بتایا کہ حکومت نے اب تک کو ئی جواب نہیں دیا ہے۔