سپریم کورٹ کی وفاقی اور صوبائی حکومتوں کو تنبیہ
اسلام آباد: سپریم کورٹ نے منگل کے روز انتہائی تحمل کا مظاہرہ کرتے ہوئے کہا کہ وفاقی اور صوبائی حکومتوں کے چیف ایگزیکٹیو کے خلاف آئینی شقوں کے تحت فیصلہ کیا جائے گا، اس لیے کہ انہوں نے سپریم کورٹ کی جانب سے لاپتہ افراد سے متعلق دی گئی ہدایات کی خلاف ورزی کی ہے۔
جسٹس جواد ایس خواجہ نے اٹارنی جنرل سلمان بٹ سے کہا کہ ’’کیا ہمیں وفاق اور خیبر پختونخوا کی حکومتوں کے چیف ایگزیکٹیو کے نام نوٹس جاری نہیں کرناچاہیٔے۔ کیا آپ یہی چاہتے ہیں؟‘‘
اٹارنی جنرل نے فوراً جواب دیا اور عدالت کو یقین دہانی کرائی کے حکومت 18 مارچ کو اگلی سماعت تک کچھ کارکردگی کا مظاہرہ کرے گی۔تین ججز پر مشتمل یہ بینچ لاپتہ فرد یاسین شاہ سے متعلق مقدمے کی سماعت کررہا ہے۔ یہ مقدمہ ان کے بڑے بھائی محبت شاہ کی ایک درخواست پر شروع کیا گیا تھا۔
گزشتہ سال دس دسمبر کو عدالت نے قرار دیا تھا کہ مالاکنڈ کے حراستی مرکز سے پینتس قیدیوں کو غائب کرنے کے ذمہ دار فوجی حکام تھے۔ لیکن عدالت کے سامنے صرف بارہ افراد کو پیش کیا گیا۔
بیس جنوری کو ہونے والی اس مقدمے کی سماعت میں عدالت نے حکومت کو خبردار کیا تھا کہ وہ وزیراعظم نواز شریف اور خیبر پختونخوا کے وزیرِ اعلٰی پرویز خٹک کے خلاف آرٹیکل 204 کے تحت توہین عدالت کی کارروائی کرے گی۔
عدالت نے وزیراعظم کے سیکریٹری جاوید اسلم کو ہدایت کی تھی کہ وہ باقی لاپتہ افراد کو عدالت میں پیش کرنے کے حکم کی وزیراعظم کی عدم تعمیل کا نوٹس لے کر آئیں۔
عدالت نے اس کے علاوہ خیبر پختونخوا کے چیف سیکریٹری محمد شہزاد ارباب کو بھی حکم دیا تھا کہ وہ اس بارے میں وزیرِ اعلٰی پرویز خٹک کو مطلع کردیں۔
منگل کے روز عدالت نے اپنے پچھلے حکم کو دوہرایا، جس میں دونوں چیف ایگزیکٹیو پر زور دیا گیا تھا کہ ان لوگوں کو حراست میں رکھنے کے ذمہ دار افسران کے خلاف قانون کے تحت سختی سے نمٹنے کی ضرورت ہے۔
عدالت نے افسوس کا اظہار کیا کہ اس کی ہدایت پر آج بھی عملدرآمد نہیں کیا گیا۔ عدالت نے واضح کیا کہ اپنے احکامات کی تعمیل کو یقینی بنانے کے لیےدستیاب آئینی شقوں کو استعمال کیا جاسکتا ہے۔
جسٹس جواد ایس خواجہ نے کہا کہ حکومت اپنے تمام اختیارات اور وسائل کے ساتھ لاپتہ افراد کہاں ہیں یہ معلوم نہیں کرسکی ہے۔
عدالت نے اس بات کا بھی جائزہ لیا کہ لاپتہ افراد کے عزیزوں کی مدد کے لیے ایک خصوصی فنڈ قائم کرنے کے لیے حکومت کو اس کی طرف سے تجویز دی گئی تھی، لیکن حکومت نے اس سے بھی پیچھے ہٹ گئی ہے، جو اس مقدمے کی پیروی کررہے ہیں اور باقاعدہ عدالت میں حاضر ہورہے ہیں۔
عدالت نے تجویز دی تھی کہ یہ فنڈ اٹارنی جنرل کے آفس میں رکھا جائے اور ان لاپتہ افراد کے رشتہ داروں کی مدد کے لیے استعمال کیا جائے جو اسلام آباد میں قیام و طعام کے اخراجات نہیں برداشت کرسکتے ہیں۔ جسٹس خواجہ نے کہا ’’یہ تو بے حسی ہے۔‘‘ انہوں نے مزید کہا کہ حکومت کو چاہیٔے کہ وہ اپنے شہریوں سے کہہ دے کہ وہ جلاوطنی اختیار کرلیں، اس لیے کہ یہاں ان کی دیکھ بھال کرنے والا کوئی نہیں ہے۔
ایڈیشنل اٹارنی جنرل شاہ خاور نے عدالت کو یقین دلایا کہ اس تجویز پر غور کیا جائےگا۔
جسٹس جواد ایس خواجہ نے پوچھا کہ ’’آخر اب تک اس پر کیوں غور نہیں کیا گیا۔‘‘ انہوں نے افسوس کا اظہار کیا کہ اربوں روپے فضول کاموں پر ضایع کردیے جاتے ہیں، لیکن کسی کو پروا نہیں ہوتی۔ انہوں نے کہا اگر یہی صورتحال جاری رہی اور ہمیں خدا کا کوئی خوف نہیں، تو پھر مزید برے راستے پر بڑھتے جائیں گے۔
خیبر پختونخوا کے ایڈوکیٹ جنرل عبدالطیف یوسف زئی نے ایک رپورٹ عدالت میں جمع کرائی، جس میں کہا گیا تھا کہ عدالت کے حکم کی تعمیل میں لکی مروت کے حراستی مرکز میں نواب علی کے بھائی، اہلیہ اور ان کے بچوں سے ان کی ملاقات کا اہتمام کیا گیا تھا۔
قیدی یوسف ولد اختر منیر کے بارے میں رپورٹ میں کہا گیا کہ ان کے کسی رشتہ دار نے ان سے ملاقات کی درخواست نہیں کی تھی۔
عدالت نے کہا کہ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ حکومت نے یوسف کے خاندان کو تلاش کرنے کے لیے کوئی اقدام نہیں کیا تھا، جو بٹ کھیلا (خیبر پختونخوا) میں مقیم ہے۔
ایسا کچھ بھی ریکارڈ پر نہیں ہے کہ حکومت نے یوسف کے خاندان کو اس کے بارے میں مطلع کرنے کی کوئی کوشش کی ہو، جو سول پاور ریگولیشن 2001ء کے تحت اس سے ملنے کا حق رکھتے ہیں۔