چینی کمپنیوں کو فوجی سیکیورٹی فراہم کرنے کا فیصلہ
اسلام آباد: حکومت نے پاکستان میں سرمایہ کاری کرنے والی چینی کمپنیوں کو فوجی سیکیورٹی فراہم کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔
وفاقی کابینہ کی جانب سے یہ اصولی فیصلہ گزشتہ ہفتے چین کے سرمایہ کاروں کو درپیش سیکیورٹی خدشات کو دور کرنے کے لیے کیا گیا اور انہیں فول پروف سیکیورٹی فراہم کرنے کی یقین دہانی کروائی گئی۔
یاد رہے کہ صوبہ بلوچستان اور خیبر پختونخوا میں قبائلی خطے کی سرحدوں سے منسلک علاقوں میں چینی ورکرز کو متعدد بار حملوں کا نشانہ بنایا گیا ہے۔
وزیر اعظم کے ایک ساتھی نے ڈان کو بتایا کہ سیکیورٹی کی صورتحال غیر ملکی سرمایہ کاری کی راہ میں ایک بڑی رکاوٹ ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ "چینی بزنس مین اور نجی اور پبلک دونوں سیکٹرز کی کمپنیوں نے گزشتہ سال جولائی میں پاکستان وزٹ کے دوران وزیراعظم نواز شرف کے ساتھ اپنی ہر ملاقات میں سیکیورٹی کی صورتحال پر شدید تحفظات کا اظہار کیا تھا۔"
خیال رہے کہ وزیراعظم نواز شریف نے اقتدار سنبھالتے ہی اپنے پہلے غیر ملکی دورے پر چین گئے تھے، اس سے پہلے وزیراعلیٰ شہباز شریف کئی مرتبہ چین کے دورے کرچکے تھے۔ مسلم لیگ نون کی حکومت عام انتخابات کی مہم کے دوران ملک سے لوڈ شیڈنگ کے بحران پر قابو پانے کے اپنے وعدے کو پورا کرنے کے لیے چینی سرمایہ کاری پر انحصار کررہی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ یہ معاملہ پچیس فروری کو ہونے والے کابینہ کے اجلاس میں زیر بحث آیا تھا جس میں یہ فیصلہ کیا گیا کہ چین کے سرمایہ کاروں کو پاکستان میں بہتر سیکیورٹی فراہم کی جائے گی اور گزشتہ کئی سالوں سے پولیس کی جانب سے سیکیورٹی کی ناقص فراہمی کو دیکھتے ہوئے حکومت نے اس سلسلے میں ایک واحد راستے کے طور پر یہ کام فوج کے حوالے کیا ہے۔
ایک سوال کے جواب میں سرکاری اہلکار کا کہنا تھا کہ ناصرف اس حوالے سے فوج کی اعلیٰ قیادت کے ساتھ مشاورت کی گئی، بلکہ فوج نے اس اقدام کی حمایت بھی کی۔
حکومت نے تمام متعلقہ حلقوں کے ساتھ مشاورت کے بعد اس فیصلے سے چینی حکام کو آگاہ کیا۔ ایک وزیر کا کہنا تھا کہ اس اقدام سے غیر ملکی سرمایہ کاروں کے پاکستان میں سرمایہ کاری کے لیے اعتماد میں اضافہ ہو گا، لیکن وہ اپنی حفاظت کے لیے خوفزدہ ہیں۔
چین کی طرف سے تقریباً 50 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کی توقع ہے، جس میں سے 35 ارب ڈالر توانائی کے شعبے کے لیے مختص ہوں گے۔ حکومت اس وقت سولہ ایسے منصوبوں پر کام کررہی ہے جن میں چینی سرمایہ کار دلچسپی رکھتے ہیں۔
ان منصوبوں میں نیوکلیئر، شمسی، کوئلہ اور پن بجلی کے منصوبے شامل ہیں اور حکومت کو امید ہے کہ مختصر اور درمیانی مدت کے یہ منصوبے پانچ سالوں کے اندار توانائی کی پیداوار شروع کردیں گے۔
پاکستان میں ترقی و منصوبہ بندی کے وزیر احسن اقبال کے مطابق چین بھی قراقرم ہائی وے پر واقع رائی کوٹ سے اسلام آباد سیکشن میں اپ گریڈنگ، کراچی سے لاہور تک موٹر وے کی تعمیر، گڈانی پاور پارک پر کوئلے سے چلنے والے دس پاور پروجیکٹ اور گوادر پورٹ کی اپ گریڈنگ کے لیے سرمایہ کاری کرنے پر رضامند ہے۔
گوادر شہر کے لیے ترقی کے لیے مربوط منصوبہ بندی کے بنیادی ڈھانچے میں ایک ہوائی اڈے کی تعمیر بھی شامل ہے۔ اس سلسلے میں دونوں ملکوں کی جانب سے مشرکہ منصوبہ بندی، مختلف شعبوں میں ان کی ترجیحات اور شناخت کے لیے ایک ورکنگ گروپ بھی تشکیل دیا جاچکا ہے۔