پاکستان کے قبائلی علاقوں میں خطرات کم ہوئے ہیں: امریکی سینیٹر

شائع February 1, 2014
۔ —. فائل فوٹو
۔ —. فائل فوٹو

واشنگٹن: امریکا کے ایک سینیئر قانون ساز نے سینیٹ کے پینل کو بتایا کہ اس ہفتے کے آغاز میں پاکستانی وفد نے کیپیٹل ہل کا دورہ کیا تھا، اور پاکستان کے قبائلی علاقوں میں خطرات اب کم ہوگئے ہیں۔

یہ بیان ماضیٔ قریب میں دیے گئے بیانات سے خاصا مختلف تھا، جبکہ پاکستان کو کانگریس کی سماعتوں کے دوران پاکستان کو تمام مسائل کا منبع قرار دے کر اکثر نشانہ تنقید بنایا جاتا رہا ہے۔

ایک سینیئر پاکستانی سفارت کار نے اس حوالے سے کہا کہ پاکستان اور امریکا کے اسٹریٹیجک ڈائیلاگ اس ہفتے واشنگٹن میں بحال ہورہے ہیں، اور اس مثبت پیش رفت کا آغاز امریکا کے وزیرِ خارجہ جان کیری کے اگست میں اسلام آباد کے دورے سے ہوا تھا۔

مذاکرات کے دوران دونوں فریقین نے ایک دوسرے کے نکتہ نظر پر شک کا رویہ اپنا رکھا تھا۔ جبکہ محکمہ خارجہ اور وہائٹ ہاؤس کے حکام عوامی تبصروں میں احتیاط کا مظاہرہ کررہے تھے۔امریکی میڈیا اکثر امریکی انتظامیہ کے سینیئر اہلکاروں کے بیانات کا حوالہ دیتا تھا کہ وہ پاکستان کو دنیا میں سب زیادہ خطرناک مقام سمجھتے ہیں۔

لیکن بدھ کے روز سینیٹر ڈائنے فینسٹین جو انٹیلی جنس معاملات پر سینیٹ کی سب سے طاقتور سلیکٹ کمیٹی کی صدر ہیں، نے اپنے پینل کو بتایا کہ ”پاکستان کے قبائلی علاقوں سے ملنے والا خطرہ انسدادِ دہشت گردی کے لیے کیے جانے والے آپریشنز کی وجہ سے اب کم ہوچکا ہے۔ دیگر علاقوں میں اس خطرےمیں اضافہ ہوا ہے۔

اسی روز امریکی محکمہ خارجہ سے جاری ہونے والے ایک بیان میں کہا گیا کہ ”امریکا کو یقین ہے کہ پاکستان نیوکلیئر سیکیورٹی کے حوالے سے اپنی ذمہ داریوں سے اچھی طرح آگاہ ہے اور اس کے جوہری ہتھیار محفوظ ہیں۔“

یہ نیویارک ٹائمز کی ایک رپورٹ کا جواب تھا، جس میں کہا گیا تھا کہ 2009ء کے دوران جب امریکا کو خدشہ تھا کہ جوہری مواد یا ہتھیار پاکستان میں لاپتہ ہوئے تھے۔ بارک اوباما نے حکم دیا تھا کہ خطے میں مستقل نگرانی اور تلاش کے لیے ایک مستقل بنیاد قائم کی جائے۔

جب نیویارک میں یہ رپورٹ شایع ہوئی تو ستائیس جنوری کو قومی سلامتی و خارجہ امور کے مشیر سرتاج عزیز اور امریکی وزیر خارجہ جان کیری نے مذاکرات کے بعد ایک مشترکہ بیان جاری کیا جس میں اس نکتے پر بھی زور دیا گیا تھا۔

اس بیان میں نیوکلیئر سیکیورٹی کے لیے پاکستان کےعزم اور خلوص پر اعتماد کا اظہار کیا گیا اور یہ تسلیم کیا گیا کہ پاکستان جوہری تحفظ اور سلامتی کے معاملات پر بین الاقوامی برادری کے ساتھ مکمل رابطے میں تھا۔

امریکی میڈیا نے سرتاج عزیز کے دورے کو تقریباً نظرانداز کردیا، تاہم پاکستانی سفارتکار اس سے مایوس نہیں ہوئے اور انہیں امید ہے کہ دوطرفہ تعلقات میں بڑھتی ہوئی سرگرمی جلد ہی امریکی میڈیا کے نوٹس میں آجائے گی اور ان کی رپورٹوں میں بھی اس کی عکاسی ہونے لگے گی۔

اسٹریٹیجک ڈائیلاگ میں حصہ لینے والے امریکی حکام کا کہنا ہے کہ یہ مذاکرات مستقبل کے تعلقات کے لیے ایک تفصیلی خاکے کی تیاری کے لیے تھے، اور اس میں جلد ہی کامیابی حاصل ہوجائے گی۔

انہوں نے اس حوالے سے کی جانے والی تنقید کو مسترد کردیا کہ ان مذاکرات میں نہ تو کوئی ٹھوس فیصلے کیے گئے اور مذاکرات کے بعد نہ ہی کسی معاہدے کا اعلان کیا گیا۔

مذاکرات سے پہلے ایک بریفنگ میں انہوں نے کہا تھا کہ سینیئر امریکی حکام پہلے ہی اس بارے میں صحافیوں کو بتاچکے ہیں کہ یہ اجلاس نتائج کے بارے میں نہیں ہے، لیکن تعلقات کے حوالے سے پلوں کی تعمیر کے لیے ہے۔

ایک سینیئر پاکستانی سفارتکار کاکہنا ہے کہ ان مذاکرات میں مستقبل کے تعلقات کے خطوط کا تعین کیا جائے گا۔

کارٹون

کارٹون : 22 دسمبر 2024
کارٹون : 21 دسمبر 2024