• KHI: Maghrib 5:49pm Isha 7:10pm
  • LHR: Maghrib 5:04pm Isha 6:31pm
  • ISB: Maghrib 5:04pm Isha 6:33pm
  • KHI: Maghrib 5:49pm Isha 7:10pm
  • LHR: Maghrib 5:04pm Isha 6:31pm
  • ISB: Maghrib 5:04pm Isha 6:33pm

ایس پی چوہدری اسلم پر حملے کے کیس کو حل شدہ کیس قرار دے دیا گیا

شائع January 30, 2014
سندھ بھر میں تیئیس خودکش حملوں میں سے یہ نواں کیس ہے کہ پولیس کے تفتیش کار اس کے منطقی انجام تک پہنچ گئے ہیں۔ —. فائل فوٹو
سندھ بھر میں تیئیس خودکش حملوں میں سے یہ نواں کیس ہے کہ پولیس کے تفتیش کار اس کے منطقی انجام تک پہنچ گئے ہیں۔ —. فائل فوٹو

کراچی: پولیس کی ایک انوسٹی گیشن ٹیم نےایس پی سی آئی ڈی کے قافلے پر بم حملے کے کیس کو کل بروز منگل 29 جنوری کو حل شدہ کیس قرار دے دیا، 2002 سے سندھ بھر میں تیئیس خودکش حملوں میں سے یہ نواں کیس ہے کہ پولیس کے تفتیش کار اس کے منطقی انجام تک پہنچ گئے ہیں۔

تاہم تفتیش کاروں کا کہنا ہے کہ اہم مشتبہ افراد جن میں تحریک طالبان پاکستان کے سربراہ اور ان کے قریبی معاونین شامل ہیں، کی گرفتاری ابھی باقی ہے۔ یہ کیس ہائی پروفائل دہشت گردی کے ان کیسز میں سے ایک ہے، جو حالیہ برسوں کے دوران کراچی میں رونما ہوئے تھے۔

سی آئی ڈی نیاز احمد کھوسہ ، ایس پی چوہدری اسلم پر ہونے والے حملے کی تفتیشی ٹیم میں شامل ہیں، جس کی قیادت ڈی آئی جی ظفرعباس بخاری کررہے ہیں، نیاز احمد کھوسہ کا کہنا ہے کہ ”خاص طور پر اس کیس میں تمام اہم حقائق کا پتہ لگالیا گیا ہے اور حملہ آوروں کے ساتھ ان کے مقاصد اور منصوبہ سازوں کی بھی تصدیق ہوگئی ہے۔ اب صرف ایف آئی آر میں نامزد مشتبہ افراد کی گرفتاریوں کا انتطار ہے۔“

ایس پی اسلم جنہیں چوہدی اسلم کے نام سے لوگ جانتے تھے، نو جنوری کو اپنے دو محافظوں کے ہمراہ اپنے قافلے پر ہونے والے بم حملے میں اس وقت ہلاک ہوگئے تھے، جب وہ لیاری ایکسپریس وے پر عیسٰی نگری کے قریب سے گزر رہے تھے۔

پولیس نے ابتداء شک ظاہر کیا تھا کہ ایک ریموٹ کنٹرول ڈیوائس کی مدد سے کیا گیا تھا، لیکن بعد میں اس نے دعویٰ کیا کہ جائے واردات پر ایک نامعلوم شخص کی باقیات ملی ہیں۔

ایک دن کے بعد تفتیشی ٹیم اس نتیجے پر پہنچی کہ ایک خودکش بمبار نے بارودی مواد سے بھرے ہوئے ٹرک کو ان پولیس افسر کی بلٹ پروف جیپ سے اس وقت ٹکرادیا، جب وہ لیاری ایکسپریس وے سے گزر رہے تھے۔

حکام نے دعویٰ کیا کہ انہوں نے مشتبہ بمبار کی شناخت کرلی ہے جو اورنگی ٹاؤن کے علاقے پیرآباد کا رہائشی چھبیس سالہ نوجوان نعیم اللہ تھا۔

حکام نے اس کے ٹی ٹی پی کے ساتھ روابط کا پتہ لگانے کے بعد کالعدم تنظیم کے سربراہ فضل اللہ اور ان کے قریبی معاون شاہد اللہ شاہد کو اس مہلک حملے کی ایف آئی آر میں نامز کرنے میں دیر نہیں لگائی۔

نتائج:

ایک دوسرے اہلکار نے اپنا نام نہ ظاہر کرنے کی خواہش کے ساتھ حملے میں استعمال کیے گئے دھماکہ خیز مواد اور بم کے بارے میں حقائق بیان کرتے ہوئے کہا کہ ”اس کے علاوہ ایس پی اسلم کیس کی تفتیش کے دوران کچھ دلچسپ نتائج بھی سامنے آئے ہیں۔“

انہوں نے کہا ”یہ حملہ انتہائی مہارت کے ساتھ اور ہدف پر نگاہ مرکوز کیے ہوئے ایک انچ کے معمولی فرق کے بغیر کیا گیا۔ نہ کم نہ زیادہ۔ یہ کام انتہائی پختگی کے ساتھ انجام دیا گیا جو بین الاقوامی معیار اور اس طرح کے حملوں کے رجحان سے مطابقت رکھتا تھا۔“

اس کے نتائج پر زور دیتے ہوئے انہوں نے کچھ ایسے حقائق کی جانب اشارہ کیا جو بم ڈسپوزل یونٹ نے اپنی رپورٹ میں بیان کیے تھے۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ اس مہلک حملے کے لیے اکیاون میٹر کی رینج مقرر کی گئی تھی، ساتھ ہی عمارتی فاصلہ 195 میٹر تھا۔

اہلکار نے بتایا ”اس حملے کی شدت اس قدر تھی کہ 838 میٹر کی حد میں عمارتوں کے شیشے ٹوٹ گئے تھے۔ دنیا بھر میں بڑے بم حملوں کے نتائج کو دیکھا جائے تو کم و بیش ایک ہی جیسا نقصانات رپورٹ ہوئے تھے، ساتھ ہی بم دھماکے کی اہم خصوصیات بھی ایک جیسی ہی تھیں۔“

چودہ کیسز حل ہونا باقی ہیں:

ایس پی کھوسہ نے بتایا ”2002ء سے اب تک سندھ بھر میں 23 خودکش حملے ہوچکے ہیں، اور ان میں سے بیس صرف کراچی میں کیے گئے۔“

”تین دیگر حملے سکھر اور نوابشاہ میں کیے گئے تھے۔ جہاں تک ایس پی اسلم پر حملے کا تعلق ہے، یہ کیس بھی حل ہونے والے کیسز میں شامل ہوچکا ہے، اور سندھ میں خودکش حملوں کے کیسز میں سے حل ہوجانے والے کیسوں کی تعداد اب نو ہوچکی ہے۔“

انہوں نے کہا ”چودہ کیسز تاحال سلجھائے نہیں جاسکے ہیں۔“

جب ان سے حل شدہ اور غیر حل شدہ کیسز کے درمیان اہم فرق کے بارے میں پوچھا گیا تو انہوں نے کچھ نتائج یا کچھ کیسز کا حوالہ دیا، جن میں مختلف اہم حقائق کا اب تک سراغ نہیں مل سکا، جس سے تفتیش کاروں کو ہر کیس کو الگ الگ زُمروں میں رکھنے میں مدد ملی۔

انہوں نے کہا کہ خودکش بمبار کی شناخت کو ہی وہ مسلمہ حقیقت تسلیم کی گئی ہے جس سے تفتیش کاروں کو کسی کیس کو حل شدہ کیس کے زُمرے میں رکھنے میں مدد ملتی ہے۔

ایس پی نے کہا ”اسی طرح اگر مقصد، حملے کے پس پردہ قوتیں اور یقینی طور پر اس کے منصوبہ ساز اور اس کو استعمال کرنے والے کا تفتیش کے دوران پتہ لگ جائے تو ایسے کیس کو حل شدہ کیس کہا جاسکتا ہے۔“

کارٹون

کارٹون : 22 دسمبر 2024
کارٹون : 21 دسمبر 2024