حزبِ اختلاف کی جانب سے طالبان کے خلاف کارروائی کا مطالبہ
اسلام آباد: اعتدال پسند اور قدامت پرست عناصر کے درمیان ایک واضح تقسیم سینیٹ میں پیر کے روز اس وقت دیکھنے میں آئی، جب ایوانِ بالا میں پچھلے دو دنوں میں طالبان کی جانب سے سیکیورٹی فورسز پر دو بڑے حملوں اور اسلامی نظریاتی کونسل کی کارگزاری پر بحث جاری تھی۔
پاکستان پیپلزپارٹی، عوامی نیشنل پارٹی اور متحدہ قومی موومنٹ نے حکومت کی سستی پر شدید تنقید کی اور کہا کہ وہ بنوں اور راولپنڈی میں سیکیورٹی فورسز پر دہشت گردانہ حملوں کے جواب میں طالبان کے خلاف فوجی کارروائی کا حکم جاری کرے۔
حزبِ اختلاف کے سینیٹروں نے حکومت سے کہا کہ وہ طالبان کے ساتھ مذاکرات کے بارے میں پارلیمنٹ اور قوم کو اعتماد میں لے، اور انہوں نے الزام عائد کیا کہ حکمرانوں کی غیر واضح اور بدحواسی پر مبنی پالیسی کی وجہ سے طالبان خود نئے سرے سے منظم کررہے ہیں۔
متحدہ قومی موومنٹ کے ریٹائرڈ کرنل طاہر مشہدی نے کہا کہ ”اگر فوج آپ کی تابعداری کرتی ہے اور آئین کو تسلیم کرتی ہے، تو اس کو استعمال کیجیے۔آخر کیا وجہ ہے کہ سیکیورٹی فورسز کے اہلکار ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھے ہیں؟“ انہوں نے حکومت کی مذمت کی کہ وہ طالبان دہشت گردوں کے خلاف ایکشن نہیں لیتی، اس حقیقت کے باوجود کہ وہ ملک کے تمام حصوں میں مستقل بنیادوں پر مسلسل حملے کررہے ہیں۔
سیکیورٹی فورسز، سیاسی اور مذہبی رہنماؤں پر طالبان کی جانب سے مسلسل حملوں کے بعد حکومتی سستی پر اپنی تشویش کا اظہار کرتے ہوئے اے این پی کے افراسیاب خٹک نے افسوس کا اظہار کیا کہ وہ ایک ایسے ملک میں آزادانہ طور پر حملے کررہے ہیں، جو ایک نیوکلیئر پاور ہے اور ایک بہت بڑی فوج بھی رکھتا ہے۔
جے یو آئی ایف کے حافظ حمداللہ نے سوال کیا کہ دفاعی مقاصد کے لیے ایک بھاری بجٹ مختص کیا جاتا ہے، اگر سیکیورٹی فورسز دو سرحدوں کی نگرانی اور کنٹرول نہیں کرسکتیں اور قبائلی علاقوں میں امن قائم نہیں کرسکتیں تو پھر ان کے اوپر اس قدر بھاری رقم خرچ کرنے کا کیا مقصد ہے؟
بنوں ٘میں سیکیورٹی فورسز پر حملے کی مذمت کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ سیکیورٹی کے فقدان پر سب سے پہلے تو سیکیورٹی ایجنسیوں کا محاسبہ ہونا چاہیٔے۔
پیپلزپارٹی کے رضا ربّانی نے پارلیمنٹ کے ایک مشترکہ اجلاس بلانے کا مطالبہ کیا، جس میں قومی سلامتی کی پالیسی پر بحث کی جاسکے، انہوں نے کہا کہ اس طرح کے مسائل پر بجائے آل پارٹیز کانفرنس میں پارلیمنٹ کے اندر تبادلۂ خیال کیا جانا چاہیٔے۔
اس سے قبل سینیٹ میں اسلامی نظریاتی کونسل کی کارگزاری پر گرما گرم بحث دیکھی گئی، جو پیپلزپارٹی کے فرحت اللہ بابر کے اس ریمارکس پر شروع ہوئی تھی، جس میں انہوں نے کہا تھا کہ اس کو تفویض کی گئی ذمہ داری کی تکمیل اور اس کی حتمی رپورٹ 1997ء میں جمع کرائے جانے کے بعد اب اسلامی نظریاتی کونسل کی ضرورت باقی نہیں رہی۔
فرحت اللہ بابر نے کہا کہ ”اسلامی نظریاتی کونسل کو یہ ذمہ داری 1973ء کے آئین کے تحت دی گئی تھی، جسے اس نے مکمل کرلیا تھا، اور آئین میں اس طرح کی مشاورتی کونسل کے لیے کوئی گنجائش نہیں ہے، جو وفاقی شرعی عدالت سےبالاتر ہو، اور جس کے بیانات صرف الجھنیں پیدا کرتے ہوں۔“
اسلامی نظریاتی کونسل نے پچھلے سال مئی میں کہا تھا کہ ڈی این اے ٹیسٹ کے نتائج کو ریپ کیس میں بنیادی ثبوت کے طور پر قبول نہیں کیے جاسکتے، جبکہ یہ دنیا بھر کی عدالتوں میں ثبوت کے طور پر قبول کیے جاتے ہیں۔
ایم کیو ایم کے طاہر مشہدی نے فرحت اللہ بابر کے نکتۂ نظر کی تائید کی اور کہا کہ کسی کو بھی اسلام کے نام پر سیاست نہیں کرنی چاہیٔے۔
حکمران جماعت مسلم لیگ نون اور جے یو آئی ایف کے اراکین کی بڑی تعداد نے اسلامی نظریاتی کونسل کو تحلیل کرنے کے لیے دیے گئے دلائل کو مسترد کردیا۔
اے پی پی:
سینٹ میں قائد ایوان سینیٹر راجہ ظفر الحق نے کہا ہے کہ یہ کہنا اسلامی نظریاتی کونسل کی اب کوئی ضرورت نہیں رہی آئین کو نہ سمجھنے کے مترادف ہے۔
انہوں نے کہا کہ اسلامی نظریاتی کونسل میں تمام مکاتب فکر کے علماء، ججز اور سکالرز کی نمائندگی موجود ہے۔
پیر کو ایوان بالا میں اسلامی نظریاتی کونسل کے حوالے سے بحث کو سمٹیتے ہوئے راجہ ظفر الحق نے کہا کہ رول 280 کے تحت تحریک کے الفاظ اور ہیں اور جو بحث کی گئی وہ موضوع سے ہٹ کر کی گئی۔
راجہ ظفر الحق کے مطابق آئین کے دارے میں کونسل اگر کوئی رپورٹ پیش کرتی ہے تو وہ ایوان میں پیش ہوتی ہے جس پر بحث ہو سکتی ہے، یہ کہنا کہ کونسل کی اب کوئی ضرورت نہیں رہی، یہ آئین کو نہ سمجھنے کے مترادف ہے۔
انہوں نے کہا کہ کونسل کی تشکیل میں تمام مکاتب فکر کے علماء اور ججز یا سکالرز لئے جاتے ہیں، جب تک قانون سازی ہوتی رہے گی اسلامی نظریاتی کونسل کا کردار باقی رہے گا کیونکہ اسمبلیاں اور سینٹ مختلف قوانین سے ریفر کرتی رہیں گی۔
انہوں نے کہا کہ سینیٹر فرحت اللہ بابر نے جو الفاظ استعمال کئے ہیں وہ مناسب نہیں، قانون کے تحت ڈی این اے ٹیسٹ پرائمری شہادت نہیں بن سکتی، ایسی رپورٹس پیسے دے کر بھی بن سکتی ہیں۔
انہوں نے کہا کہ پینل کوڈ کے تحت جھوٹا الزام لگانے پر 7 سال قید کی سزا ہو سکتی ہے، اس لئے فرحت اللہ بابر کے دلائل کو مسترد کرتا ہوں۔
اس کے ساتھ ہی تحریک پر بحث نمٹا دی گئی۔
تبصرے (1) بند ہیں