جمیعت کا ہنگامہ
پنجاب یونیورسٹی کے ہاسٹل سے گرفتاریاں اور اس کے نتیجے میں پیر کو اسلامی جمیعتِ طلبہ کا لاہور کی سڑکوں پر بدترین احتجاج ،حالیہ کشیدگی میں تازہ ترین اضافہ تھا۔
سادہ لفظوں میں کہیں تو حالیہ عرصے میں پنجاب یونیورسٹی نے جمیعت کے اُس اثر سے کیمپس کو صاف کرنے کی کئی کوششیں کی ہیں، جسے پنپنے کی اجازت کبھی خود اس نے ہی دی تھی۔
جمیعت کی طرف سے پیرکا پُرتشدد فساد خود اس بات کا اظہار ہے کہ وہ کیمپس سے نکال باہر کرنے کے ہر اقدام کی سخت مزاحمت کرے گی۔
پنجاب یونیورسٹی اور جمیت کے درمیان تازہ ترین کشیدگی گذشتہ ہفتے لاء کالج لاہور کے چند اساتذہ سے بدسلوکی کے اُس معاملے پر شروع ہوئی جس میں جمیعت سے تعلق رکھنے والے طلبہ کو ملوث کیا گیا تھا۔
بذاتِ خود یہ واقعہ تحقیقات کے لیے کافی تھا لیکن ساتھ ہی یہ واقعات اظہار ہیں کہ کیمپس کی رگوں میں جمیعت کا اثر کس حد تک اُتر چکا، لہٰذا کئی برسوں سے کیے جانے والے مطالبے پر کارروائی کی خاطر یہ جواز مناسب تھا کہ پنجاب ہونیورسٹی کو خوف و دہشت اور اُس غیر تحریری ضابطہ اخلاق سے آزاد کیا جائے، جسے اُنہوں نے کیمپس پر لاگو کر رکھا ہے۔
پنجاب یونیورسٹی کی موجودہ انتظامیہ اور ان کے پیش روؤں کے درمیان امتیاز کرنا کچھ زیادہ مشکل نہیں۔ سابق انتظامیہ، جمیعت کے خلاف کیمپس میں کسی بھی قسم کی کارروائی سے متعلق ہمیشہ ہچکچاہٹ کا مظاہرہ کرتی رہی تھی۔
جمیعت کی سرپرست، جماعتِ اسلامی نے اہم قومی و عالمی معاملات، جیسا کہ عسکریت پسندی کے خلاف جنگ پر نہایت جوشیلا موقف اپنایا ہے، متواتر سامنے والے حقائق سے ظاہر ہوتا ہے کہ جماعت عسکریت پسندوں کی صرف ہمدرد نہیں بلکہ ان کی پارٹنر بھی ہے۔
حالیہ دنوں میں، یہ اطلاعات بھی سامنے آئی تھیں کہ لاہور میں جمیعت کا ایک کارکن القاعدہ کے ساتھ مبینہ روابط کے الزام میں پکڑا گیا جبکہ کراچی سے تعلق رکھنے والا جمیعت کا ایک کارکن قبائلی علاقے پر ہونے والے ایک ڈرون حملے میں ہلاک ہوا۔ یہ واقعات جماعت اسلامی اور جمیعت کے تذکرے کو انتہا پسندی کے طور پر آگے بڑھاتے ہیں۔
طاقت اور اس کے مطالبات کے تناظر میں، پاکستان مسلم لیگ ۔ نون کو اپنے پرانے اتحادی جماعتِ اسلامی کےساتھ اچھے تعلقات برقرار رکھنا کبھی ناممکن نہ رہا لیکن اب دونوں جماعتوں کے درمیان علیحدگی کا وقت آپہنچا جو حقیقی معنوں میں صفائی کےامکانات بڑھاتے ہیں۔