آج سے متحدہ عرب امارات ایشیا میں کرکٹ کی بادشاہت کے حصول کی جنگ کی میزبانی کرے گا، اور یہ کہا جارہا ہے کہ اس بار یہ جنگ ایشیا کپ کی تاریخ کی سب سے مشکل جنگ بن سکتی ہے۔
ایسا نہیں کہ اس سے قبل ایشیا کپ میں 6 ٹیمیں شریک نہیں ہوئیں بلکہ ماضی میں 2 مرتبہ ایسا ہوچکا ہے، لیکن دونوں مرتبہ اضافی 2 ٹیموں میں نے اچھے مقابلے پیش کیے اور نہ کبھی یہ تاثر دینے کی کوشش کی کہ وہ بھی ٹائٹل جیتنے کی دوڑ میں شامل ہیں۔ مگر تاریخ میں پہلی مرتبہ ایسا موقع آیا ہے ایونٹ میں شریک 6 میں سے 5 ٹیمیں ٹائٹل جیتنے کی صلاحیت رکھتی ہیں اور اس صورتحال کو دیکھتے ہوئے ایونٹ کے اکثر میچز دلچسپ ہونے کی امید رکھی جاسکتی ہے۔
متحدہ عرب امارات میں ہونے والے اس ایونٹ کی میزبانی بھارت کو کرنی تھی مگر پاک بھارت تعلقات کو مدنظر رکھتے ہوئے ایشین کرکٹ کونسل نے ایونٹ کو بھارت کی مزبانی میں عرب سرزمین پر منعقد کرانے کا اعلان کیا۔
ایشیا کپ کے لیے پاکستان اور بھارت کی ٹیموں کو واضح فیورٹ قرار دیا جا رہا ہے لیکن سری لنکا کے ساتھ ساتھ گزشتہ کچھ سالوں میں تیزی سے بہتری کی جانب گامزن بنگلہ دیش اور افغانستان کی ٹیموں کو کسی بھی طور نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔
ایونٹ میں ٹیموں کو 2 گروپوں میں تقسیم کیا گیا ہے اور 4 بہترین ٹیمیں اگلے راؤنڈ میں ایک دوسرے سے نبرآزما ہوں گی اور 2 بہترین ٹیمیں فائنل میں جگہ بنائیں گی لیکن یہ سفر اتنا آسان بھی نہیں ہوگا کیونکہ کسی بھی ٹیم کی چھوٹی سی غلطی بھی اسے ایونٹ سے باہر کرنے کے لیے کافی ہوگی۔
اگر ٹیموں کی بات کی جائے تو سب سے پہلے ’گروپ بی‘ پر ایک نظر ڈالتے ہیں جسے 'گروپ آف ڈیتھ' کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا کیونکہ اس گروپ میں شامل تینوں ٹیمیں سری لنکا، بنگلہ دیش اور افغانستان اگلے راؤنڈ میں پہنچنے کی صلاحیت رکھتی ہیں۔
سب سے پہلے بات کرتے ہیں افغانستان کی ٹیم کی جو گزشتہ کچھ عرصے کے دوران ایک عجوبے کی طرح شاندار کارکردگی دکھاتے ہوئے عالمی منظرنامے پر خود کو منوانے میں کامیاب رہی۔
افغانستان
افغانستان کی گزشتہ ایک سال کی کارکردگی کو دیکھتے ہوئے یہ کہا جاسکتا ہے کہ اس ٹیم کے پاس ایونٹ میں شریک دیگر ٹیموں کے مقابلے میں سب سے خطرناک اور موثر اسپن باؤلنگ اٹیک موجود ہے۔
ٹی20 کرکٹ میں عالمی نمبر ایک اور ون ڈے کرکٹ میں عالمی نمبر 2، راشد خان دنیا بھر کے بلے بازوں اور ٹیموں کے لیے دردِ سر بنے ہوئے ہیں، جنہوں نے اپنی عمدہ باؤلنگ سے افغانستان کو متعدد فتوحات سے ہمکنار بھی کرایا بلکہ راشد خان کے ڈیبیو کے بعد سے وہ اپنی ٹیم کی فتح میں اکثر اہم ترین محرک ثابت ہوئے ہیں۔