پاکستان

الگ الگ ریلیوں سے پی ایم ایل-این کا اندرونی انتشار بے نقاب

راولپنڈی میں مقامی رہنما اپنے اختلافات اس وقت بھی ختم کرنے میں ناکام رہے، جب کہ وزیراعظم بحران کا سامنا کررہے ہیں۔

روالپنڈی: جمعرات کو پاکستان مسلم لیگ (پی ایم ایل-این) کے روالپنڈی چیپٹر کی جانب سے وزیراعظم نواز شریف کے حق میں دو علیحدہ علیحدہ ریلیاں نکالی گئیں، جن سے پارٹی کے اندرونی ٹوٹ پھوٹ بے نقاب ہوگئی۔

پی ایم ایل-این راولپنڈی کے صدر سردار نسیم، اراکین قومی اسمبلی ابرار احمد اور طاہر اورنگزیب، سابق اراکین قومی اسمبلی ملک شکیل اعوان اور حاجی پرویز خان، صوبائی اسمبلی کے رکن راجہ حنیف ایڈوکیٹ اور سیما جیلانی نے ایک ریلی کی قیادت کی۔

یہ ریلی جو مسلم لیگ ن کے چار سو کارکنوں پر مشتمل تھی، ایک ورکرز کنونشن کے بعد پریس کلب سے شروع ہوکر کمیٹی چوک پر اختتام پذیر ہوئی۔

دوسری جانب سابق رکن قومی اسمبلی حنیف عباسی نے راولپنڈی آرٹس کونسل کے آڈیٹوریم میں ایک اور ورکرز کنونشن کا اہتمام کیا تھا، جس کے بعد ایک ریلی نکالی گئی جو شمس آباد سے شروع کر فیض آباد پر ختم ہوئی۔ اس ریلی میں دو سو سے زیادہ افراد نے شرکت کی۔

بظاہر پی ایم ایل-این کے مقامی رہنما اپنے اختلافات اس وقت بھی ختم کرنے میں ناکام رہے، جب کہ وزیراعظم اسلام آباد میں دھرنوں کی وجہ سے مصیبت میں مبتلا ہیں۔

پارٹی کے سینئر کارکنان نے شکایت کی کہ اتحاد کا مظاہرہ کرنے اور پارٹی کو بحران سے نکالنے کی کوشش کرنے کے بجائے مقامی رہنما کچھ وفاقی وزراء کی سرپرستی میں کارکنان کی حمایت حاصل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔

سیٹیلائٹ ٹاؤن میں مقیم پی ایم ایل-این کے ایک سینئر کارکن محمد شبیر نے بتایا ’’اس (مقامی رہنماؤں کے درمیان انتشار) کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ مسلم لیگ ن کی حکومت تقریباً پچھلے ایک سال کے دوران اپنی کارکردگی میں ناکام رہی ہے۔ چوہدری نثار علی خان، خواجہ آصف، پرویز رشید، حمزہ شہباز اور دیگر نے پارٹی کے اندر اپنے گروپس تشکیل دے رکھے ہیں، اور بجائے عوام کو سکون پہنچانے کے یہ لوگ پارٹی کے کارکنان پر کنٹرول حاصل کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔‘‘

پرانا قلعہ سے ایک اور کارکن نثار احمد کہتے ہیں کہ شیخ رشید نے مسلم لیگ ن کی قیادت کے خلاف بدزبانی سے کام لیا تھا، اور مقامی رہنماؤں نے انہیں شہریوں کی حاصل کرنے کا ایک اور موقع فراہم کردیا ہے۔

انہوں نے کہا ’’کیا ان رہنماؤں نے پچھلے ایک سال کے دوران کارکنوں کے لیے کام کیا تھا، اگر ایسا ہوتا تو ایک واحد شخص بھی عمران خان کے دھرنے میں شرکت کرنے کے لیے اسلام آباد نہیں جاتا۔‘‘

رابطہ کرنے پر سردار نسیم نے بتایا کہ انہوں نے پارٹی کے تمام رہنماؤں اور کارکنوں کو پریس کلب پرمنعقدہ کنونشن میں مدعو کیا تھا، لیکن حنیف عباسی نے ایک علیحدہ ریلی کا انتظام کرلیا۔

انہوں نے کہا ’’میں نہیں جانتا کہ اس کی وجہ کیا تھی۔ اس الگ تقریب کے اچانک انتظام کے بارے میں کچھ لوگوں نے مجھے مطلع کیا، جب کہ اس کی کوئی ضرورت نہیں تھی۔‘‘

سردار نسیم نے بتایا کہ مسلم لیگ ن کے کارکنان عمران خان اور ان کے ساتھیوں کی جانب سے وزیراعظم اور وزیراعلٰی پنجاب کے لیے بُری زبان استعمال کرنے پر سخت ناراض تھے۔

انہوں نے کہا کہ پی ایم ایل-این راولپنڈی میں دو دن کے اندر اندر ایک جرگے کا انعقاد کرے گی، جس میں منتخب حکومت کے حق میں قرار داد منظور کی جائے گی۔

اس کے علاوہ ان ریلیوں کے دوران مسلم لیگ ن کے کارکنان نے وزیراعظم نواز شریف، وزیراعلٰی شہباز شریف اور فوج کے حق میں نعرے لگائے۔ شرکاء نے پلے کارڈز اُٹھا رکھے تھے، جن پر طاہر القادری اور عمران خان کے خلاف نعرے درج تھے۔

ان ریلیوں کے شرکاء نے وزیراعظم سے کہا کہ انہیں استعفٰی نہیں دینا چاہیٔے۔ انہوں نے ملک میں جمہوری نظام کے تحفظ کے لیے اپنے عزم کا اعادہ کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ عمران خان اور طاہر القادری کے دھرنوں سے ان کی ہوسِ اقتدار بے نقاب ہوگئی ہے۔