پاکستان

دفتر خارجہ نواز شریف کے دورۂ ہندوستان کے حق میں

قائدِ حزب اختلاف خورشید شاہ نے بھی زور دیا ہے کہ وسیع تر مفاد کے پیش نظر وزیراعظم کو یہ دعوت قبول کرلینی چاہیٔے۔

اسلام آباد: پاکستانی دفترِ خارجہ نے اس بات کی سفارش کی ہے کہ وزیراعظم نواز شریف کو ہندوستان کے نومنتخب وزیراعظم نریندرا مودی کے حلف برداری کی تقریب میں شرکت کی دعوت قبول کرلینی چاہیٔے۔

تاہم بدھ کو موصول ہونے والی دعوت کے حوالے سے حکومت نے تاحال کوئی فیصلہ نہیں کیا ہے۔

نریندرا مودی نے جنوبی ایشیا کی علاقائی تعاون کی تنظیم سارک کی رکن ریاستوں کے رہنماؤں کو اس تقریب میں شرکت کی دعوت دی ہے۔

نواز شریف کو ملنے والی یہ دعوت ملک بھر میں بحث کا موضوع بن گئی ہے، کہ انہیں یہ دعوت قبول کرنی چاہیٔے یا نہیں، خاص طور پر اس کو دو طرفہ تعلقات میں موجود تناؤ اور ماضی میں پاکستان کی دعوت کو ہندوستانی وزیراعظم ڈاکٹر منموہن سنگھ کی جانب سے قبول نہ کیے جانے کے تناظر میں دیکھا جارہا ہے۔

جمعرات کے روز دفتر خارجہ کے ایک سینئر سفارتکار نے ڈان کو بتایا ’’دفتر خارجہ کی جانب سے اس کی سفارش کردی گئی ہے اور اس کے حق میں فیصلے کا زیادہ امکان ہے۔‘‘

اس دعوت پر دفترخارجہ کی جانب سے پیش کیے گئے مؤقف کی وضاحت کرتے ہوئے مذکورہ اہلکار نے کہا کہ ’’اگر یہ موقع چلا گیا تو یہ ایک غلطی ہوگی۔ ہمیں موجودہ صورتحال سے بلند ہوکر دیکھنا چاہیٔے۔‘‘

وزریراعظم نواز شریف نے مودی کو ان کی پارٹی کی انتخابی فتح پر مبارکباد دینے کے لیے فون کیا تھا اور انہیں عہدہ سنبھالنے کے بعد پاکستان کے دورے کی دعوت دی تھی۔

اگرچہ پاکستان سے متعلق معاملات پر بی جے پی کے انتہاپسندانہ نکتہ نظر اور سخت گیر مؤقف کی وجہ سے پاکستان میں اس پارٹی کی انتخابی فتح کو بہت محتاط انداز میں دیکھا گیا ہے۔ حکومت کا سرکاری مؤقف مودی کی حکومت کے ساتھ تعلقات کے حوالے سے معنی خیز اور جامع ہو گا۔

اسی دوران قومی اسمبلی میں قائدِ حزبِ اختلاف خورشید احمد شاہ نے نواز شریف پر زور دیا ہے کہ دونوں ملکوں کے وسیع تر مفاد میں یہ دعوت قبول کرلینی چاہیٔے۔

پارلیمنٹ ہاؤس میں اپنے چیمبر میں صحافیوں سے بات چیت کرتے ہوئے خورشید شاہ نے کہا کہ اس طرح کے اقدا م سے خطے میں صورتحال کو بہتر بنانے میں مدد ملے گی، اور دونوں ملکوں کے عوام سکھ کا سانس لے سکیں گے۔

انہوں نے کہا کہ ’’پاکستان اور ہندوستان کے درمیان بہتر تعلقات دونوں ملکوں کے غریب عوام کے مفاد میں ہیں۔‘‘

ان کا مزید کہنا تھا کہ یہی وہ وقت ہے کہ دونوں ملکوں کو جنگ پر توجہ دینے کے بجائے اپنی قوموں کی ترقی کے لیے کام کرنا چاہیٔے۔