پاکستان

بجلی کی قیمت جنوبی ایشیا کے مقابلے میں پاکستان میں سب سے زیادہ

خواجہ آصف نے تسلیم کیا کہ انڈیا، بنگلہ دیش اور سری لنکا کے مقابلے میں پاکستانی عوام بجلی کی زیادہ قیمت ادا کررہے ہیں۔

اسلام آباد: کل جمعرات کے روز قومی اسمبلی کے ایوان میں حکومت کی جانب سے ایک غیرمعمولی اعتراف یہ کیا گیا کہ پاکستان میں بجلی کی قیمتیں اس سے کہیں زیادہ ہے جو خطے کے دیگر ممالک انڈیا، سری لنکا اور بنگلہ دیش کے صارفین ادا کررہے ہیں۔

پاکستان تحریک انصاف کی رکن نفیسہ خان خٹک کے اُٹھائے گئے ایک سوال کے تحریری جواب کے ذریعے پانی اور بجلی کے وفاقی وزیر خواجہ محمد آصف نے قومی اسمبلی کو بجلی کی انتہائی زیادہ قیمتوں کی وجوہات کے بارے میں مطلع کیا، اُن کا کہنا تھا کہ ’’پاکستان میں صارفین سے بجلی کی جو قیمت وصول کی جارہی ہے،وہ پیدوار، اسٹرکچر اور ٹرانسمیشن کی لاگت اوربجلی کی تقسیم کے دوران ہونے والے نقصانات کی بنا پر ہے۔‘‘

انہوں نے کہا کہ بجلی کی پیداوار کا سب سے سستا ذریعہ پن بجلی ہے، جو پاکستان میں بجلی کی بڑھتی ہوئی مانگ کو پوار کرنے کے لیے ناکافی ہے۔

وفاقی وزیر نے کہا کہ لہٰذا ملک میں بجلی کی طلب کو پورا کرنے کے لیے زیادہ تر تھرمل کے ذریعے ہی پوری کی جارہی ہے۔ اگرچہ بجلی کی پیدوار کے لیے گیس بھی ایک اور سستا ترین ذریعہ ہے، لیکن یہ بھی ملک کے بجلی کی نظام کی ضرورت کے مطابق دستیاب نہیں ہے۔

خواجہ آصف نے کہا کہ مہنگے فرنس آئل کے استعمال کے نتیجے میں بجلی کی نرخوں میں نمایاں اضافہ ہوا ہے۔

اُن کا مزید کہنا تھا کہ فرنس آئل کی قیمت 2006-07ء کے دوران بیس ہزار چھ سو چار روپے فی میٹرک ٹن تھی، جو بڑھ کر 2013-14ء میں بہتر ہزار ایک سو چونتیس روپے تک پہنچ گئی ہے۔

بجلی کی پیداواری منصوبوں کے حوالے سے نیشنل الیکٹرک پاور ریگولیٹری اتھارٹی (نیپرا) نے مالی سال 2013-14ء کے لیے انکشاف کیا تھا کہ اس میں پن بجلی کا حصہ چونتیس فیصد، فرنس آئل کا پینتیس فیصد اور گیس کا تیئس فیصدہے۔

چنانچہ پیداواری قیمت کے بغیر بجلی کی قیمت پن بجلی کی پیداوار کے لیے 0.08/kWhروپے، فرنس آئل سے پیدا کی جانے والی بجلی کی قیمت 18.25 روپے اور گیس سے پیدا ہونے والی بجلی کی قیمت 5.58/kWh روپے ہے۔

پانی و بجلی کے وفاقی وزیر نے وضاحت کرتے ہوئے بتایا کہ ’’اس موازنے سے ظاہر ہوتا ہے کہ پن بجلی کے ذریعے سے حاصل ہونے والی بجلی فرنس آئل سے پیدا کی جانے والی بجلی سے کہیں کم قیمت ہے، یہی وجہ ہے کہ بجلی کی فراہمی کی قیمت میں نمایاں اضافہ ہوا ہے۔‘‘

انہوں نے کہا کہ حکومت کی کوشش تھی کہ گھریلو صارفین کو کم آمدنی والے گروپ کے تحت رکھا جائے اور نیپرا کی جانب سے مقرر کی گئی سپلائی کی لاگت کو ایسے صارفین کی جانب مکمل طور پر منتقل نہ کیا جائے۔

خواجہ آصف نے اپنے جواب میں کہا کہ حکومت نے ہمیشہ عوام کی کمزور مالی حالت کے پیش نظر بجلی کے نرخوں کو کم رکھنے اور پیداواری لاگت کے فرق کو حکومت کی جانب سے ادا کی جانے والی سبسڈی سے دور کرنے کی کوشش کی ہے۔

اس کے علاوہ انہوں نے کہا کہ حکومت متبادل توانائی کے ترقیاتی بورڈ کے ذریعے سستی بجلی کے تناسب میں اضافہ کرنے کی کوشش کررہی ہے۔

انہوں نے کہا کہ واپڈا ایک ماسٹر پلان تیار کررہا ہے، جس کے تحت سستی بجلی کی پیداوار کے لیے نئے ہائیڈرو پاور پروجیکٹ تعمیر کیے جائیں گے۔