پاکستان

'مداخلت کی روک تھام کے لیے اداروں کو مضبوط بنایا جائے'

عاصمہ جہانگیر کا کہنا ہے کہ سول اداروں کو خود مختار بنایا جائے تاکہ فوج کو مداخلت پر بہت زیادہ مشکلات کا سامنا کرنا پڑے۔

اسلام آباد: سویلین اور فوجی قیادت میں جاری کشیدہ صورتحال کے پس منظر میں انسانی حقوق کے لیے سرگرم اور سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کی سابقہ چیئر پرسن عاصمہ جہانگیر نے بدھ کے روز تجویز پیش کی ہے کہ ملکی اداروں کو انتہائی حد تک خودمختار بنانا چاہیٔے تاکہ مستقبل کے دوران ملک میں فوجی مداخلت کو روکنے میں مدد مل سکے۔

’’ہمیں ہموار تبدیلیوں کے لیے لاطینی امریکا کے ملکوں سے سبق سیکھنے کی ضرورت ہے۔‘‘

سپریم کورٹ پر انہوں نے یہ بات اداروں کے مابین جاری کشمکش کے حوالے سے صحافیوں کے سوالوں کے جواب میں کہی۔

عاصمہ جہانگیر نے لاطینی امریکا کے ممالک کی مثال کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ کیوبا، برازیل، چلی اور یوراگوئے میں تاریخ تبدیلی کی وجہ سے بظاہر دباؤ پیدا ہوا، لیکن اس کے بعد وہاں جمہوری قیادت صرف ان کے اداروں کی مضبوطی، شہری آزادیوں اوراقتصادی ترقی کے ذریعے ہی سامنے آئی۔

انہوں نے کہا کہ ’’ہمیں سول اداروں کو انتہائی حد تک خود مختار بنانے کی ضرورت ہے، تاکہ جب فوج کے اندر مداخلت کی خواہش پیدا ہو تو اس کو بہت زیادہ مشکلات کا سامنا کرنا پڑے۔‘‘

عاصمہ جہانگیر نے سیاسی حکومتوں اور فوجی اسٹیبلشمنٹ سے کہا کہ وہ غیر اہم معاملات پر اپنی توانائی ضایع کرنے کے بجائے قوم کو درپیش بڑے مسائل پر اپنی توجہ مرکوز کریں۔

انہوں نے افسوس کا اظہار کیا کہ اداروں نے صورتحال کو انتہائی حساس بناکر پیش کیا، جیسے کہ وہ پاکدامنی کا نمونہ تھے۔

ان کا کہنا تھا کہ وہ اظہارِ رائے کی آزادی کی ہرقیمت پر حمایت کریں گی، لیکن ایسے میڈیا ہاؤسز کی کبھی حمایت نہیں کریں گی جو اداروں کے خلاف داغدار مہم چلا رہے ہیں۔

عاصمہ جہانگیر نے کہا کہ اگرچہ لوگوں کو سیکیورٹی فورسز کی اہمیت کو لازماًسمجھنا چاہیٔے، تاہم انہیں یہ بھی حق حاصل ہے کہ وہ ان کے حد سے تجاوز کرنے پر تنقید کرسکیں۔

انہوں نے مزید کہا کہ فوج کو سمجھنا چاہیٔے کہ سویلین اداروں کی جانب سے کیے گئے غلط یا صحیح فیصلوں کی بالادستی ضروری ہے۔

عاصمہ جہانگیر نے کہا کہ ’’لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ سویلین حکومتیں ہمیشہ فوجی اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ ہم آہنگی سے حکومت کرنے کی صلاحیت رکھتی ہیں۔‘‘