پاکستان

بجلی کے بحران میں اضافے پر وزیراعظم کو تشویش

پیر کے روز بجلی کی طلب سترہ ہزار میگاواٹ جبکہ پیداوار گیارہ ہزار میگاواٹ تھی چنانچہ شارٹ فال چھ ہزار میگاواٹ تھا۔

اسلام آباد (خاور گھمن کی رپورٹ): گوکہ درجہ حرارت ملک کے بالائی علاقوں میں اب بھی چالیس سینٹی گریڈ سے نیچے ہے، لیکن ملک کے طول و عرض میں لوڈ شیڈنگ پہلے ہی شروع ہوچکی ہے۔

یقیناً یہ وزیراعظم نواز شریف کے لیے انتہائی پریشان کن بات ہوگی، کہ ان کی پارٹی نے الیکشن میں توانائی کے بحران سے جنگی بنیادوں پر نمٹنے کے وعدے پر ہی کامیابی حاصل کی تھی۔

اندرونِ سندھ جہاں بعض اضلاع میں درجہ حرارت چالیس ڈگری سینٹی گریڈ سے آگے بڑھ گیا ہے، وہاں لوڈشیڈنگ کے خلاف مظاہرے جاری ہیں، اور پنجاب میں بھی لوڈشیڈنگ میں اضافہ ہوا ہے، بظاہر محسوس ہوتا ہے کہ حکومت اس بحران سے نمٹنے کے لیے اپنے ذہن کو تیار کرچکی ہے۔

پیر کے روز وزیراعظم نواز شریف نے ایک اور خصوصی اجلاس طلب کیا، جس کا ایجنڈا اس ایک نکتے پر مبنی تھا کہ لوڈشیڈنگ کو کس طرح قابلِ برداشت سطح پر رکھا جائے۔

پانی و بجلی کے وفاقی وزیر خواجہ آصف، وزیرِ مملکت برائے پانی و بجلی عابد شیر علی، وزیرِ اطلاعات پرویز رشید اور بجلی کی وزارت کے سینئر حکام نے اس اجلاس میں شرکت کی۔

اس اجلاس میں شریک ایک حکومتی اہلکار نے بتایا کہ بجلی کی وزارت اس حوالے سے پُراعتماد نظر آئی کہ وہ بجلی کی قلت کو موسمِ گرما کے دوران تین ہزار میگاواٹ کی سطح پر لانے میں کامیاب ہوجائے گی، جس کا مطلب ہے کہ چھ سے آٹھ گھنٹے کی لوڈشیڈنگ ہوگی۔

لیکن زمینی صورتحال وہ نہیں ہے، جس سے بجلی کے وزیر یا وزیراعظم کو آگاہ کیا جارہا ہے۔

مثال کے طور پر واپڈا کے ایک سینئر اہلکار نے ڈان کو بتایا کہ ہفتے کے روز نیشنل گرڈ کو پانچ ہزار میگاواٹ سے زیادہ کے شارٹ فال سامنا تھا۔ بجلی کی اس قلت کے ساتھ دس گھنٹوں سے زیادہ کی لوڈشیڈنگ تو لازمی ہے۔

مذکورہ اہلکار نے بتایا ’’حکومت کے لیے اس وقت سب سے مشکل کام بلوں کی وصولی ہے، جو اس وقت سرکاری اور نجی شعبوں دونوں ہی کی جانب سے عدم ادائیگی کی وجہ سے اسی فیصد تک پہنچ چکا ہے۔‘‘

جنوری فروری کے بقایاجات 492 ارب روپے ہیں، جس میں سے 366 ارب روپے نجی شعبے کے ہیں، اور باقی سرکاری شعبے نے ادا کرنے ہیں۔

بجلی کے بحران کے حوالے سے اہلکار نے بتایا کہ یہ بجلی کے شعبے میں بدانتظامی کی وجہ سے پیدا ہوا ہے، اگر حکومت چاہتی ہے کہ لوگ بطور احتجاج سڑکوں پر نہ آئیں تو اس کو یہ بدانتظامی دور کرنی ہوگی۔

انہوں نے کہا بجلی پیدا کرنے والی کمپنیوں کو باقاعدہ ادائیگی کرنی ہوگی، حکومت کو بجلی کے بلوں کی وصولی کو لازماً بہتر بنانا ہوگا اور اس بات کو یقینی بنانا ہوگا کہ گردشی قرضوں اپنی حد سے آگے نہ بڑھیں۔

سرکاری اہلکار نے دعویٰ کیا کہ وزیراعظم نواز شریف نے حکم دیا کہ بقایاجات کے ساتھ ساتھ حالیہ واجبات کی وصولی میں سختی سے کام لیا جائے اور بجلی کے دونوں وزیروں سے کہا کہ وہ روزانہ کی بنیاد پر صورتحال کی نگرانی کریں۔

مذکورہ اہلکار نے وزیراعظم کے الفاظ کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ ’’میں اس سلسلے میں کسی قسم کا عذر نہیں چاہتا، اگر وزارت کے اندر کو ئی کارگردی میں ناکام رہتا ہے، اُسے تبدیل کردیں، برطرف کردیں۔ میں بہتر کارکردگی چاہتا ہوں۔ بجلی کے نادہندگان کو بجلی کی فراہمی منقطع کردیں۔‘‘

نواز شریف نے کہا کہ مستقبل میں بلوں کی ادائیگی کے بغیر بجلی بحال نہ کی جائے اور اس سے پہلے وزیراعظم کے آفس کا مطلع کیا جائے۔

مسلم لیگ کے ایک سینئر رہنما نے ڈان کو بتایا کہ اگلے تین سے چار مہینے حکومت کے لیے فیصلہ کن ہیں۔ ’’عمران خان (پی ٹی آئی کے سربراہ) پہلے ہی حکومت کے خلاف احتجاج کا اعلان کرچکے ہیں، خدانخواستہ اگر ہم لوڈ شیڈنگ کم کرنے میں ناکام رہتے ہیں تو یہ موسمِ گرما مسلم لیگ نون کے لیے نہایت سخت ہوگا۔ لہٰذا وزیراعظم کی فکرمند حق بجانب ہے، اور قبل از وقت اقدامات ضروری ہیں۔

سرکاری طور پر جاری ہونے والے بیان کے مطابق وزیراعظم کو بجلی کی چوری اور بقایاجات کی وصولی کے سلسلے میں بجلی کی تقسیم کار کمپنیوں کی کارکردگی کے بارے میں بریفنگ دی گئی۔ نواز شریف نے پانی و بجلی کی وزارت کو ہدایت کی کہ بقایاجات کی وصولی کی رفتار میں اضافہ کیا جائے اور بجلی کی چوری بالکل بھی برداشت نہ کی جائے۔

بجلی کا شارٹ فال چھ ہزار میگاواٹ سے آگے بڑھ گیا:

(لاہور سے احمد فراز خان کی رپورٹ)

پیر کے روز بجلی کا شارٹ فال چھ ہزار میگاواٹ سے آگے بڑھ گیا، جس کی وجہ سے شہری علاقوں کو بارہ گھنٹے اور دیہی علاقوں کو اٹھارہ گھنٹے سے زیادہ کی لوڈ شیڈنگ کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔

تاہم حکام کا دعویٰ ہے کہ یہ شارٹ فال صرف دو ہزار تین سو میگاواٹ ہے، پیداوار تقریباً گیارہ ہزار میگاواٹ ہے اور طلب محض 13 ہزار میگاواٹ سے زیادہ ہے، یا شارٹ فال صرف بیس فیصد ہے۔

اگر اس دعوے کو تسلیم کرلیا جائے تو لوڈشیڈنگ چار گھنٹوں سے زیادہ نہیں ہونی چاہیٔے۔ لیکن زمینی صورتحال یہ ہے کہ لوڈشیڈنگ کا اوسط پندرہ گھنٹے ہے یا چوبیس گھنٹوں میں ساٹھ فیصد شارٹ فال ہے۔

نیشنل ٹرانسمیشن اینڈ ڈسپیچ کمپنی (این ٹی ڈی سی) کے ایک سابق چیئرمین کا کہنا تھا کہ ’’اگر سرکاری اعدادوشمار میں بیان کردہ شارٹ فال درست ہے تو پھر حکومت کو چاہیٔے کہ تمام ڈسٹری بیوشن کمپنیوں کےچیف ایگزیکٹیوز کو برطرف کردے۔‘‘

انہوں نے کہا کہ اس کا مطلب یہ ہوگا کہ تمام سی ای اوز بجلی ہونے کے باوجود پندرہ گھنٹوں کی لوڈشیڈنگ کرکے حکومت کے خلاف کام کررہے ہیں۔

واضح رہے کہ این ٹی ڈی سی کی جانب سے جاری کردہ اعداد و شمار 2010ء کے اعدادوشمار سے ملتے جلتے ہیں۔

انہوں نے افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ’’پچھلے چار برسوں کے دوران بجلی کی طلب میں جو اضافہ ہوا تھا، وہ کہاں چلا گیا؟یہ افسوس کی بات ہے کہ حکومت عام آدمی کے مصائب تسلیم کرنے کے لیے بھی تیار نہیں ہے۔ عوم پریشانی میں مبتلا ہے لیکن بجلی کی کمپنیاں، پانی وبجلی کی وزارت کی قیادت میں ازخود تیار کردہ اعدادوشمار کے پیچھے صورتحال کو چھپانے کی کوشش کررہی ہیں۔‘‘

پاکستان الیکٹرک پاور کمپنی (پیپکو) کے ایک اہلکار کا کہنا تھا کہ بجلی کی طلب پیر کے روز سترہ ہزار میگاواٹ تک بڑھ گئی تھی، اس لیے کہ ملک کے بیشتر حصوں میں درجہ حرارت میں اضافہ ہوگیا تھا۔

سندھ کے زیادہ تر علاقوں میں درجہ حرارت 45 ڈگری سینٹی گریڈ اور جنوبی اور وسطی پنجاب میں چالیس ڈگری سینٹی گریڈ تک پہنچ گیا تھا۔

ملک میں درجہ حرارت کا اس حد تک بڑھ جاناموسمِ گرما کے دوران معمول کی بات ہے اور اس دوران بجلی کی طلب میں لامحالہ اضافہ ہوجاتا ہے۔

بجلی کی پیداوار گیارہ ہزار میگاواٹ کے قریب تھی، جبکہ طلب سترہ ہزار میگاواٹ تک پہنچ گئی تھی۔

نیشنل گرڈ میں ہائیڈل پاور کی شراکت تقریباً چار ہزار میگاواٹ تک رہی، جبکہ انڈیپنڈنٹ پاور پروڈیوسرز (آئی پیز) کی پیداوار چھ ہزار ایک سو میگاواٹ تھی، اور تھرمل پیداوار تقریبا چودہ سو میگاواٹ تھی۔

اگر تقسیم کے نقصانات کے-الیکٹرک (سابقہ کراچی الیکٹرک سپلائی کمپنی) کو پندرہ سو میگاواٹ کی فراہمی کو نکال دیا جائے تو عام آدمی کے لیے تو صرف نو ہزار میگاواٹ کی بجلی باقی رہ جاتی ہے، جبکہ طلب سترہ ہزار میگاواٹ تک پہنچ گئی ہے۔