پاکستان

جڑواں شہروں کے مدارس۔ ٹی ٹی پی کے فعال حامی

مذاکرات کی ناکامی اور ممکنہ فوجی آپریشن پر ٹی ٹی پی کا ردّعمل کیا ہوگا، حکومت کی ہدایت پر پولیس کی تیار کردہ رپورٹ۔

راولپنڈی اور اسلام آباد پولیس کی مشترکہ طور پر تیار کردہ ایک رپورٹ میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) جڑواں شہروں میں دہشت گردی کی کارروائیوں کے لیے انتہاپسند مذہبی مدرسوں کی فعال حمایت حاصل کررہی ہے۔

جاری امن مذاکرات کی ناکامی کی صورت میں ٹی ٹی پی کے سخت ردّعمل کے خوف سے وفاقی حکومت نے پولیس کو طالبان کے حمایتیوں اور ہمدردوں کے بارے میں معلومات جمع کرنے کی ہدایت کی تھی۔ پولیس نے یہ رپورٹ انٹیلی جنس ایجنسیوں کی مدد سے تیار کی ہے۔

ڈان کو دستیاب اس رپورٹ کی ایک نقل میں بیان کیا گیا ہے کہ جڑواں شہروں میں دہشت گردی کی کارروائیاں کرتے وقت ٹی ٹی پی تنہا نہیں ہوگی۔ ’’اُسے (ٹی ٹی پی) کو مذہبی مدرسوں اور دیوبندی مسلک کی مساجد کی مکمل حمایت حاصل ہے۔‘‘

یہ مدرسے اور مساجد ٹی ٹی پی کے دہشت گردوں کے لیے قیام گاہ اور پناہ گاہ کے طور پر استعمال ہوتے ہیں۔

اہم مدارس جو ٹی ٹی پی کو مدد فراہم کرتے ہیں، یہ ہیں:

پیر عزیز الرحمان ہزاروی کی قیادت میں جامعہ دارالعلوم زکریا، بستی انوار المدینہ، سرائے خربوزہ، ترنال اور گولڑہ میں واقع جامعہ خالد بن ولید جو مولانا فضل الرحمان خلیل کے زیرِ اہتمام کام کررہا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ مولانا فضل ایک جہادی کمانڈر ہیں اور انصارالامّہ کے سربراہ بھی ہیں۔

رپورٹ کے مطابق ٹی ٹی پی کی جانب سے راولپنڈی اور اسلام آباد میں کیے گئے دہشت گردی کے حملوں کی سرگرمیوں میں ان دونوں مدرسوں کو بطور مرکزی مقام استعمال کیا گیا تھا۔

ان کے بعد یہاں دیگر مدرسوں اور جامعہ مساجد کی ایک بڑی تعداد موجود ہے، جن کے منتظمین ان دونوں مدرسوں کے ہم خیال ہونے کی وجہ سے ان کے ہم رکاب ہیں۔

جب بھی ٹی ٹی پی نے جڑواں شہروں میں خودکش حملہ کرنے کی منصوبہ بندی کی، تو حملہ آوروں کو ہدف بنائے گئے علاقوں میں واقع ان مدرسوں اور مساجد کے ہم خیال منتظمین کی جانب سے آخری لمحے پر بھی مدد فراہم کی گئی تھی۔

رپورٹ میں بیان کیا گیا ہے کہ ان شہروں کے مختلف علاقوں میں واقع مدارس میں خیبرپختونخوا، فاٹا، شمالی اور جنوبی وزیرستان، باجوڑ، خیبر اور مہمند ایجنسیوں کے طالبعلم موجود ہیں۔ان طالبعلموں کو مرکزی مدارس دارالعلوم زکریااور جامعہ خالد بن ولید میں جہادی تربیت بھی دی جارہی تھی۔

اس کے علاوہ ان دونوں مرکزی مدارس کی منتظمین کے ذریعے دیوبندیوں کے زیرانتظام دیگر مذہبی مدارس اور مساجد کی بھی ٹی ٹی پی کو حمایت حاصل ہے۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ’’بالفرض ٹی ٹی پی کے خلاف فوجی آپریشن کیا جاتا ہے تو جڑواں شہروں میں حملے کرنے کے لیے ہم خیال مدرسوں کو ذمہ داری دی جائے گی۔ اس کے ساتھ ساتھ دور دراز علاقوں میں قائم مدرسوں کو دہشت گردوں کی پناہ گاہوں کے طور پر استعمال کیا جائے گا۔‘‘

پولیس رپورٹ میں راولپنڈی میں قائم بیس ایسے مدرسوں کی نشاندہی کی گئی ہے، جنہیں ٹی ٹی پی کے حملہ آوروں کی جانب سے استعمال کیا جائے گا۔

یہ مدارس کنٹونمنٹ، ٹینچ بھاٹا، گرجا روڈ، ویسٹریج، دھمیال کیمپ، صدر، اتحاد کالونی، خیابانِ سرسید، کشمیری بازار، پنڈورہ، صادق آباد، پیر ودھائی، چکلالہ اور ڈھوک ہاسو میں قائم ہیں۔ اس رپورٹ میں مزید بتایا گیا ہے کہ اٹک ڈسٹرکٹ کی تحصیل جھنڈ میں اُمتِ اسلامیہ پبلک ہائی اسکول کے طالبعلموں کی بڑی تعدادٹی ٹی پی کے ساتھ جہاد پر گئی تھی، نو طالبعلم تو اب بھی وزیرستان میں موجود ہیں۔

اس اسکول کے پرنسپل منظور حسین کے دو بیٹے مجاہد منظور اور شاہد منظور اسکول کے دوسرے طالبعلموں کو جہاد کی تبلیغ کے استعمال کیے جاتے ہیں۔

’’اب یہ دونوں وزرستان میں ٹی ٹی پی کے ساتھ جہاد میں مصروف ہیں۔‘‘ اسکول کے پرنسپل زرعی محکمے میں اٹھارہ گریڈ کے افسر ہیں اور پہلے جماعت اسلامی کے ساتھ منسلک رہ چکے ہیں۔ ایک خاتون ٹیچر کے ساتھ دوسری شادی کرنے پر جماعت اسلامی نے ان کی رکنیت منسوخ کردی تھی۔

رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ ’’اس اسکول کے دو طالبعلم محمد عثمان اور عبدالمتین افغانستان میں مارے گئے تھے۔‘‘ مزید یہ کہ وہ میٹرک پاس کرنے کے بعد افغانستان گئے تھے۔

اس اسکول کے دیگر دو طالبعلم عمران ستار اور حافظ مدثر نے اٹھائیس جنوری 2010ء کو جھند میں اور آٹھ فروری 2013ء کو کورنگی اڈا میں دہشت گردانہ حملے کیے تھے۔

مذکورہ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ یہ اسکول نویں اور دسویں کلاس کے طالبعلموں کو جہاد کے لیے تربیت دیتا تھا۔

فوج کی جانب سے دہشت گردوں کے ٹھکانوں پر فضائی حملوں کے بعد شمالی اور جنوبی وزیرستان کے لوگوں کی ایک بڑی تعداد ملک کے دیگر حصوں کی جانب نقل مکانی کرگئی تھی۔

اس رپورٹ کے مطابق’’بہترین تربیت یافتہ دہشت گرد اور ان کے رہنما و کمانڈر فاٹا میں اپنے ٹھکانوں سے فرار ہو کر ایبٹ آباد، کاکول، نتھیاگلی، مری، جٹ ایلیاٹ اور پگواڑی جیسے پہاڑی علاقوں میں پناہ لے سکتے ہیں۔‘‘

وہ بعد میں جڑواں شہروں میں منتقل ہوکر ان مدرسوں میں پناہ لے سکتے ہیں، بعد میں وہ دہشت گردانہ سرگرمیاں جاری رکھ سکتے ہیں۔

پولیس رپورٹ کے مطابق ’’ممکنہ فوجی آپریشن کے ردّعمل میں، طالبان پشتو بولنے والے خاکروبوں اور خواتین کو بھی اپنے اہداف پر حملے کے لیے استعمال کرسکتے ہیں۔‘‘

اس کے علاوہ ٹی ٹی پی کے سرگرم کارکن بارہ کہو اور اڈیالہ روڈ جیسے اسلام آباد اور روالپنڈی کے دیہی علاقوں میں اپنے لیے حمایتی اور ہمدرد تلاش کرسکتے ہیں۔