پاکستان

لاہور ہائی کورٹ کا 'ڈرون مخالف شخص' کی پیشی کا حکم

کریم خان نامی شخص کے وکیل کے مطابق ان کے مؤکل کو پانچ فروری کو دارالحکومت اسلام آباد کے مضافات سے اٹھایا گیا تھا۔

اسلام آباد: آج بدھ کے روز لاہور ہائی کورٹ نے وفاقی حکومت کو حکم دیا کہ کچھ روز قبل اغوا ہونے ہونے والے ڈرون حملوں کے خلاف مہم چلانے والے شخص کو بیس فروری کی سماعت میں پیش کیا جائے۔ جن کے بارے میں یہ کہا جارہا ہے کہ انہیں ملک کی انٹیلیجنس ایجنسیوں نے حراست میں لیا ہے۔

کریم خان نامی اس شخص کی قانونی ٹیم کے مطابق ان کے مؤکل کو پانچ فروری کو دارالحکومت اسلام آباد کے مضافات سے اٹھایا گیا تھا۔

خیال رہے کہ کریم خان کو اس وقت میں حراست میں لیا گیا جب صرف چند روز بعد ہی انہوں نے یورپین پارلیمنٹ کے اراکین کے سامنے ڈرون حملوں کے حوالے شواہد پیش کرنے تھے۔

لاپتہ شخص کے وکیل شہزاد اکبر نے عالمی خبررساں ادارے اے ایف پی کو بتایا کہ لاہور ہائی کورٹ کے راولپنڈی بینچ نے اس واقعہ پر حکومت کے ذریعے خفیہ ایجنسیوں کا جواب حاصل کرنے کے علاوہ بیس فروری کو ہونے والی سماعت میں کریم خان کو پیش کرنے کا بھی حکم جاری کیا اور یہ بھی کہا کہ ان کی گرفتاری کی وجوہات بھی عدالت کو بتائی جائیں۔

انہوں نے کہا کہ پولیس کی جانب سے عدالت میں پیش کی گئی رپورٹ میں اس واقعہ میں کسی بھی قسم کی مداخلت سے انکار کیا گیا۔

ان کا کہنا تھا کہ پولیس نے اپنی رپورٹ میں یہ ذکر کیا تھا کہ کریم خان کو جس شخص نے اٹھایا وہ پولیس کی وردی میں ملبوس تھا۔

لاتپہ افراد کے وکیل کا کہنا تھا کہ انہیں کچھ زیادہ امید نہیں ہے کہ انٹیلیجنس ایجنسیاں کریم خان کو عدالت کے سامنے پیش کریں گی، ہمیں معلوم ہے کہ انٹیلیجنس ایجنسیاں ملک کو چلا رہی ہیں اور وہ کسی کو بھی جوابدہ نہیں ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ یہ بات صرف حکومت سے معلوم ہوسکتی ہے کہ آیا کس ایجنسی نے کریم خان کو حراست میں لیا۔

یاد رہے کہ لاپتہ ہونے والے شخص کریم خان کے بھائی اور ان کے کم سن بیٹے کو دسمبر 2009ء میں قبائلی علاقے شمالی وزیرستان میں ہوئے ایک ڈرون حملہ میں ہلاک ہوگیا تھا۔

پاکستان نے گزشتہ مہینے ہی ایک نئی قانون کو منظوری دی ہے جس میں سیکیورٹی فورسز کو اس چیز کا اختیار دیا گیا ہے کہ وہ کسی بھی مشتبہ شدت پسند کو بغیر ٹھکانے بتائے نوے روز تک حراست میں رکھ سکتے ہیں۔

اس قانون سے بظاہر ایسا لگتا ہے کہ نام نہاد لاپتہ افراد کے مقدمے کو ایک قانونی تحفظ دینے کی کوشش کی گئی ہے، جو سیکیورٹی سروسز کی حراست میں ہیں اور ان کے اہل خانہ کو ان افراد کے بارے میں کوئی معاملات سے محروم ہیں۔