پاکستان

مذہب کی تبلیغ کے لیے کوئی کیسے قتل کرے گا؟

مزار پر چھ مزدوروں کے قتل کی دہشتناک واردت، جس کے ارد گرد کے بہت سے علاقے درحقیقت طالبان کے کنٹرول میں ہیں۔

کراچی: ”ظالم ہیں، بے گناہوں کو مارتے ہیں۔“ فقیر احمد نے یہ جملہ اس وقت ادا کیا جب وہ ایک دن پہلے گلشن معمار میں ایوب شاہ بخاری کے مزار کے اندر ہونے والے چھ مزدوروں کے دہشت ناک قتل کے بارے میں بتا رہے تھے۔

خدا کی بستی میں واقع ایک اور مزار کے اندر ایک گھاس پھونس کی جھونپڑی جسے آستانے کا نام دیا گیا تھا، میں بیٹھے ہوئے فقیر احمد نوجوانوں کے ایک گروپ سے بات چیت میں مصروف تھے، جو قریب میں واقع ایوب گوٹھ سے لنگر کے بارے میں دریافت کرنے آئے تھے، جو بدھ کو تقسیم کیا جاتا ہے۔

نزدیک سے گزرتے ہوئے ٹریفک کے شور کے علاوہ قیوم شاہ بخاری کے مزار کے اندر کا ماحول نہایت پرسکون تھا۔

تیس برس کے دیہاڑی دار مزدور جاوید حسین نے بتایا ”ہم یہاں اس قتل کے بارے میں جاننے کے لیے آئے ہیں، دوسرے لوگوں کی طرح ہم بھی بے خبر ہیں کہ آخر کوئی کیوں مذہب کی تبلیغ کے لیے قتل کرے گا؟“

اگرچہ مزار کے اندر کسی چیز سے ان بزرگ کے شجرۂ نسب یا پس منظر کے بارے میں آگاہی نہیں ملتی تھی، لیکن ان کے لیے لوگوں کے دل میں عقیدت موجود تھی۔ اس شخص کا اصرار تھا کہ اس کے دل میں ان کی گہری عقیدت کی وجہ یہ تھی کہ وہ ایک ”بندۂ خدا“ تھا اور اس پرسکون مقام پر اس کے آنے کی یہی ایک وجہ تھی۔

آستانہ کے دروازے پر، جہاں صندل کی لکڑی کی گہری خوشبو چاروں طرف پھیلی ہوئی تھی، ایک نوجوان عقیدت مند یاسر علی کھڑے تھے، انہوں نے کہا کہ ”بزرگ ایوب شاہ کے تین بھائی تھے، شریف شاہ، کریم شاہ اور یعقوب شاہ۔ ان کے مزارات شہر کے مختلف حصوں میں موجود ہیں۔“

لیکن قیوم شاہ کے مزار میں موجود کسی بھی شخص کو یاد نہیں تھا کہ باقی دو بزرگوں کے مزارات کہاں واقع ہیں۔

فقیر احمد نے دوران گفتگو مداخلت کرتے ہوئے بتایا کہ جب ایوب شاہ بخاری کا مزار تعمیر ہوا تھا، تو اس کے اردگرد زیادہ آبادی نہیں تھی۔ یہ پندرہ سال پہلے کی بات ہے جب فقیر احمد دیگر فقیروں کے طرح اندرون سندھ سے سفر کرکے کراچی آئے تھے۔

انہوں نے وضاحت کی ”صرف ایک چیز جو چوکنڈی کے بزرگ کے مزار کی یہاں موجود ہے۔ آپ دیکھ سکتے ہیں کہ برسوں سے یہاں بتدریج تعمیر جاری ہے، جس میں زیادہ تر لوگوں نے اپنی مدد آپ کی ہے۔جس سے آپ ان کی عقیدت کا اندازہ لگاسکتے ہیں۔“

زیادہ تر اس مزار کے قریب رہتا دیکھ کر مزار کے پچھلے نگران نے فقیر احمد سے کہا کہ وہ قیوم شاہ کے مزار پر ہی منتقل ہوجائیں اور اس کی دیکھ بھال کا کام سنبھال لیں۔

فقیر احمد کہتے ہیں کہ ایک رات انہیں اپنے خواب کے ذریعے ایک اشارہ ملا کہ انہیں کراچی کا سفر کرنا چاہئیے، اور ان بزرگ کی قبر کو نئے سرے سے صاف ستھرا کرنا چاہئیے۔ ”اب جیسے جیسے ہم لوگوں سے دور ہوتے جارہے ہیں، ہمارے دل میں سب کا احترام بڑھتا جارہا ہے۔“ وہ جب بات کررہے تھے تو نوجوان عقیدت مند انہیں بغور دیکھ رہے تھے۔

گلشن معمار میں سڑک دوسرے سرے سے دیکھنے پر مزار کے گرد پولیس کانسٹبلز کو دیکھ کر ایسا لگ رہا تھا کہ جیسے پہاڑ کے اردگرد سیاہ بادل منڈلا رہے ہوں۔

آستانہ اور مزار کے درمیان پرچموں کے بوسیدہ اور پھٹے پرانے ٹکڑے لہرا رہے تھے اور مزار کی تعمیرات کے ساتھ علم ایستادہ تھا۔

آستانہ کے اندر جہاں خون کے دھبے اب بھی موجود تھے، صرف پولیس کانسٹیبل ہی وہ واحد فرد تھا جس سے مزار کے اندر جانے کی کوشش کی جاسکتی تھی۔

مزار کے اردگرد کے علاقے میں یا تو صنعتیں قائم ہیں، یا پھر نصف تعمیر شدہ پلاٹ ہیں، جن کی دیکھ بھال کے لیے کوئی گارڈ تعینات نہیں ہے۔

کانسٹبل نے تین سال پہلے ہوئے ایک ہنگامے کا تذکرہ کرتے ہوئے بتایا کہ جب ارد گرد کے علاقے کی منصوبہ بندی کی جارہی تھی اور ملیر ڈیویلپمنٹ پروجیکٹ میں اس مزار نہ ہونے کی وجہ سے اس کو گرایا جانے لگا تو اس وقت شدید ہنگامہ آرائی ہوئی تھی ۔ منگل کے روز ہونے والا واقعہ بھی اسی مقصد کو آگے بڑھانے کی ایک کوشش ہوسکتا ہے۔

لیکن ایس ایس پی سینٹرل نے واضح الفاظ میں اس کی تردید کی۔

جب یہ خبر سامنے آئی تو طالبان کے تعلق سے بہت سے سوالات بھی کھڑے ہوئے، پولیس کا کہنا ہے کہ زیادہ سے زیادہ لوگ اس بارے میں کچھ سننا نہیں چاہتے، اگرچہ طالبان اب شہر کے بہت بڑا حصہ بن گئے ہیں۔

ایس ایس پی سینٹرل عامر فاروقی کا کہنا تھا کہ پہلے تو انہیں اس حوالے سے شک و شبہہ تھا، لیکن وہاں پر خنجر کے نیچے پڑی ایک چٹ پر واضح طور پر تحریکِ طالبان پاکستان کا نام تحریر تھا۔ ”اور یہی درحقیقت انہی کا عام طریقہ کار ہے، جس سے وہ لوگوں میں خوف پھیلاتے ہیں۔“

انہوں نے کہا کہ یہ واقعہ جائیداد یا کسی اور چیز سے متعلق نہیں ہے، بلکہ یہ واضح ہے کہ طالبان کو صوفی ازم کی آئیڈیالوجی سے اختلاف ہے۔

اس کے علاوہ انہوں نے کہا کہ مزار کے ارد گرد کا علاقہ، مثال کےطور پر جنجال گوٹھ، فقیرا گوٹھ اور خدا کی بستی درحقیقت طالبان کے کنٹرول میں ہیں۔

اسی طرح کے واقعہ میں نیوی کے ایک سابق اہلکار کا سر قلم کرکے سہراب گوٹھ پر لٹکا دیا گیا تھا، جس کے متعلق ایس ایس پی نے کہا کہ ٹی ٹی پی سے اس واقعہ کا کوئی تعلق نہیں تھا۔ ”یہ معاملہ دشمنی کا تھا، ہمیں ہر معاملے کو ٹی ٹی پی کے ساتھ نہیں جوڑنا چاہئیےؕ۔“

گزشتہ سال دسمبر میں متحدہ قومی موومنٹ کے رہنما اور سندھ اسمبلی میں قائد حزبِ اختلاف فیصل سبزواری نے نیوی کے اہلکار سلیم رضا کے سرقلم کیے جانے کا معاملہ صوبائی اسمبلی میں اُٹھایا تھا، انہوں نے دلیل دیتے ہوئے کہا تھا کہ اس واقعے کو ایک الگ تھلگ واقعہ نہیں سمجھنا چاہیٔے۔

ڈان سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا تھا کہ وہ اب بھی اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ یہ واضح ہے کہ طالبان اور ان سے منسلک تنظیمیں پچھلے چند سالوں سے خود کو مضبوط بناچکی ہیں۔

اب صورتحال کچھ اس طرح کی ہوچکی ہے کہ کراچی کے مضافات کے گنجان آباد علاقے فیصلہ کن انداز میں ان کی نگرانی کے تحت چلے گئے ہیں۔

جرائم پیشہ عناصر کے خلاف جاری آپریشن کے بارے میں فیصل سبزواری نے کہا کہ ”کیا اس بات کی ضرورت نہیں ہے کہ اس آپریشن میں ان عناصر کو ہدف بنایا جاتا۔

اس دوران جب مزار سے عقیدت مند جانے لگے تو فقیر احمد نے کہا کہ ”وہ نہیں جانتے کہ طالبان کا مطلب کیا ہے یا وہ کیا کررہے ہیں۔

جب انہیں بتایا گیا کہ پولیس ان کے ٹھکانوں کی تلاش اور ان کو گرفتار کرنے کی کوشش کررہی ہے، تو انہوں نے کہا کہ ”ان کو مالک پہنچے گا، وہ خدا کی پکڑ سے فرار نہیں ہوسکتے۔“