نقطہ نظر

بلوچستان کی انفرادیت

بلدیاتی انتخابات میں صوبہ بازی لے گیا، دوسرے صوبوں کو بھی اس کی تقلید کرنا چاہیے۔

وفاقی اکائیوں میں سب سے پہلے، سنیچر کو بلدیاتی اداروں کے انتخابات منعقد کرانے پر بلوچستان تعریف کا مستحق ہے۔ یہاں تقریباً چار سال پہلے مدت کی تکمیل پر بلدیاتی ادارے تحلیل ہوئے تھے۔ ان انتخابات کے ذریعے پیغام گیا ہے کہ بلوچستان سے زیادہ مستحکم اور ترقی یافتہ دیگر صوبوں کو بھی اس کی تقلید کرنی چاہیے۔

کہیں بھی منتخب بلدیاتی نظام، جمہوری طرزِ حکمرانی کا تیسرا پہیہ ہے لیکن صوبے کے حالات کے پیشِ نظر، بلوچستان کے لیے اس کی اہمیت اور زیادہ بڑھ چکی ہے، جس کی متعدد وجوہات ہیں۔

اسلام آباد پر بلوچوں کے اعتماد کا فقدان ہے اور دیگر عناصر جیسا کہ صوبائی دارالحکومت سے دور دراز واقع متعدد کمیونٹیز کی پسماندگی، ایسے میں منتخب مقامی نمائندے ترقی، استحکام اور صوبے میں امن کے قیام میں بنیادی نوعیت کا اہم کردار ادا کرسکتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ بلدیاتی انتخابات منعقد ہوئے اور شہریوں کی اس میں شمولیت ایک مثبت علامت ہے۔

بلوچستان میں متعدد رکاوٹوں جیسے علیحدگی پسندوں کے بائیکاٹ، امیدواروں کے اغوا اور صوبے میں عمومی سطح پر امن و امان کے مسائل کے باوجود جمہوری عمل اور اس میں لوگوں کی شرکت سے ظاہر ہے کہ اب تک سب کچھ ہاتھوں سے نہیں نکلا۔

تمام تر رکاوٹوں اور مسائل کے باوجود بلدیاتی انتخابات منعقد کرانے پر صوبائی حکومت کی تعریف کی جانی چاہیے۔

مزیدِ برآں، یہ بھی سچ ہے کہ انتخابی عمل مکمل طور پر خامیوں سے پاک نہ تھا۔ اطلاعات ہیں کہ بعض مقامات پر پولنگ عملہ تاخیر سے پہنچا، جبکہ بعض جگہوں پر پولنگ عملہ ضرورت سے کہیں کم بھی تھا۔

یہ بات پریشان کُن ہے کہ ضلع نوشکی میں حکام کی مداخلت سے قبل، خواتین ووٹرز کو عارضی طور پر ووٹ ڈالنے سے بھی روکا گیا تھا۔

اگرچہ بعض مقامات پر انتخابات سے جُڑے روایتی تشدد کے بھی کچھ واقعات بھی پیش آئے، تاہم جن علاقوں میں علیحدگی پسندوں کا گہرا اثر ہے، وہاں ٹرن آؤٹ کافی کم رہا ہے۔ اب جبکہ انتخابات ہوچکے تو شاید اس کے ساتھ ہی اصل چیلنج بھی شروع ہوچکا۔

بلوچستان کے نو منتخب بلدیاتی نمائندوں کو مسائل حل کرنے کے لیے دن رات کام کرنا ہوگا اور یہ تو صاف ظاہر ہے کہ مسائل بہت سارے ہیں۔

اسی دوران، سندھ اور پنجاب کو بھی بلدیاتی انتخابات کے انعقاد میں حائل رکاوٹوں کو دور کرنے کے لیے نہایت سنجیدگی سے غور و فکر کرنا چاہیے۔

اگر وہ اپنی توجہ دھرنے سے ہٹا کر عوامی بہبود کے زیادہ بڑے کام کی طرف کرسکتی ہے تو خیبرپختون خواہ انتظامیہ کو بھی ایسا ہی کرنا چاہیے۔

انگریزی میں پڑھیں۔

ڈان اخبار