اسرائیل کا غزہ میں شہریوں کو پانی سے محروم رکھنا ’نسل کشی‘ پر مبنی اقدام ہے، ہیومن رائٹس واچ
انسانی حقوق کی عالمی تنظیم ہیومن رائٹس واچ (ایچ آر ڈبلیو) نے اسرائیل کو غزہ پٹی میں آبی تنصیبات اور شہریوں کو پانی کی فراہمی منقطع کرنے پر نسل کشی کا مرتکب قرار دیتے ہوئے عالمی برادری سے اسرائیل پر مخصوص پابندیاں عائد کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔
خبر رساں ادارے ’اے ایف پی‘ کے مطابق تنظیم نے ایک تازہ رپورٹ میں اسرائیلی حکام کی طرف سے جان بوجھ کر غزہ میں فلسطینیوں کو پینے کے پانی سے محروم رکھنے کی تفصیلات فراہم کی ہیں۔
رپورٹ کے مطابق اقدامات ہزاروں اموات کا سبب ہیں اور مستقبل میں بھی اس کا خطرہ جاری رہے گا۔
دوسری جانب اسرائیل نے ہیومن رائٹس واچ کی غزہ میں نسل کشی اور شہریوں کے لیے پانی کی رسائی کو محدود کرنے کی رپورٹ کو جھوٹ قرار دیا۔
تنظیم کی رپورٹ میں اسرائیل کے پانی اور نکاسی آب کے نظام کو جان بوجھ کر نشانہ بنانے کے حوالے سے تفصیل فراہم کی گئی ہے، اس کے علاوہ ٹریٹمنٹ پلانٹس کو بجلی فراہم کرنے والے سولر پینلز کو نقصان پہنچانے اور جنریٹرز کے لیے ایندھن کی ترسیل میں رکاوٹیں پیدا کرنے کی معلومات بھی رپورٹ میں شامل ہیں۔
رپورٹ میں کہا گیا کہ اسرائیل نے بجلی کی فراہمی منقطع کرنے کے ساتھ ساتھ مرمت کرنے والے ورکرز پر حملے بھی کیے۔
رپورٹ کے مطابق ’اسرائیلی حکام نے غزہ میں فلسطینی شہریوں کے لیے جان بوجھ کر ایسے حالات مسلط کیے جو ’ان کی زندگی کے لیے ناقابل برداشت ہوں۔‘
ہیومن رائٹس واچ نے کہا کہ ’قتل عام‘ اور ’نسل کشی‘ کے یہ اقدامات جنگی جرائم کے مترادف ہیں۔’
ڈان ڈاٹ کام سے بات کرتے ہوئے ہیومن رائٹس واچ کے سینئر کاؤنسل ایشیا ڈویژن، سروپ اعجاز نے کہا، ’یہ قتل عام، انسانیت کے خلاف جرم اور نسل کشی کا عمل ہے۔‘
انہوں نے کہا کہ اسرائیلی حکام نے صرف غزہ کے فلسطینیوں کے لیے پانی بند نہیں کیا بلکہ پانی کے نظام کو تباہ کیا، پانی فراہم کرنے والے کارکنوں کو نشانہ بنایا۔
سروپ اعجاز کا کہنا تھا کہ ’یہ انتہائی منظم طرز عمل ’جسمانی تباہی کی منصوبہ بندی‘ کا حصہ ہے، اور یہی اسے نسل کشی کا عمل بناتا ہے۔‘
واضح رہے کہ 7 اکتوبر 2023 کے بعد غزہ میں اسرائیلی جارحیت سے کم از کم 45 ہزار 97 فلسطینی شہید ہوئے ہیں۔