ایمسٹرڈیم ہنگامہ آرائی: ’تنقید کرنے کی جرأت کروگے تو یہود مخالف قرار دے دیے جاؤ گے‘
روایتی مغربی میڈیا نے امریکی انتخابات کے دوران کی جانے والی اپنی غلطیوں سے کوئی سبق نہیں سیکھا اور یہ گزشتہ ہفتے ایمسٹرڈیم میں یوئیفا کے ماتحت فٹبال میچ کے دوران رونما ہونے والے واقعات کی میڈیا کوریج سے ظاہر ہوا۔
زیادہ تر میڈیا کا کہنا تھا کہ صدارتی انتخابات کانٹے دار ہوئے جس میں نائب صدر کاملا ہیرس کو معمولی برتری حاصل ہے لیکن انتخابی نتائج نے ظاہر کیا کہ میڈیا کی قیاس آرائیاں حقیقت سے کتنی متصادم تھیں۔
جب یوئیفا یوروپا لیگ کے میچ کے دوران نیدرلینڈز کے دارالحکومت ایمسٹرڈیم میں ڈچ کلب ایجیکس اور اسرائیلی فٹبال کلب مکابی تل ابیب کے حامی غنڈوں کے درمیان سڑکوں پر لڑائیاں اور ہنگامے پھوٹ پڑے تو نیویارک ٹائمز، دی گارڈین سے لے کر بی بی سی تک بہت سے میڈیا آؤٹ لیٹس بھی اسرائیل کی مظلومیت کے اس ایجنڈے کی حمایت کرنے لگے جس کا وہ دہائیوں سے کامیاب پرچار کررہا ہے۔
ایڈولف ہٹلر اور جرمنی کے نازی، یہودیوں کے خلاف ہولوکاسٹ کے ذمہ دار تھے جس میں گزشتہ صدی میں 50 سے 60 لاکھ یہودی ہلاک ہوئے۔ اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ یہ انسانیت کے خلاف انتہائی ہولناک جرم تھا جو ناقابلِ معافی ہے جس کے بعد یہودیوں اور دنیا بھر کے بہت سے لوگوں نے عہد کیا کہ وہ یقینی بنائیں گے کہ ’دوبارہ کبھی ایسا نہ ہو‘۔ یہ ایک منصفانہ حل اور انتہائی اہم عہد تھا۔
لیکن گزشتہ 75 سالوں سے فلسطین پر قبضے، فلسطینیوں کو ان کے گھروں سے بےدخل کرنے، انہیں قید اور قتل کرنے کے لیے ہولوکاسٹ کو ہی جواز بنایا گیا ہے۔ کوئی باضمیر شخص جب اعتراض کرتا ہے یا اسرائیل کے اقدامات کے خلاف احتجاج کرتا ہے تو اسے ’یہود مخالف‘ اور ’یہودیوں سے نفرت کرنے والا‘ قرار دے دیا جاتا ہے۔ صہیونیت پر کی گئی کسی بھی طرح کی تنقید چند مخصوص حلقوں میں غم و غصے کی آگ کو بھڑکاتی ہے اور ناقدین کو فوری طور پر ’یہود مخالف گروہ‘ کا حصہ قرار دے دیا جاتا ہے۔
اس بیانیے کو مغربی میڈیا اور طاقتور مغربی حکومتوں کی مدد سے ہیرا پھیری کرکے تشکیل دیا گیا ہے۔ مغربی حکومتوں کے سیاستدان اسرائیل کی حمایت کے بدلے میں اپنی مہمات میں بھاری عطیات وصول کرتے ہیں۔ میں یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ میرے اس جملے کو بھی تنقید قرار دے کر رد کردیا جائے گا۔
سب سے پہلے تو یہودیوں کے درمیان تفریق کرنا انتہائی ضروری ہے۔ اسرائیل اور دنیا بھر میں مقیم بہت سے یہودی نسل پرست ریاست کی فلسطینیوں اور عرب اسرائیلیوں کی جانب اپنائی جانے والی پالیسیز سے ناخوش ہیں جبکہ دوسری قسم نسل کش صہیونی ہیں جو اسرائیل کو کنٹرول کررہے ہیں۔ ان صہیونی آبادکاروں کا یہودی اقدار سے تعلق نہیں۔
لیکن نسل کشی کرنے والے صہیونیوں کے مظالم پر آنکھیں بند کرلی جاتی ہیں کیونکہ انہیں مغرب میں بڑی سیاسی اور معاشی طاقت حاصل ہے۔ گوگل کرکے دیکھ لیجیے کہ یہ کیسے مغربی جمہوریتوں کی مرکزی سیاسی جماعتوں کی فنڈنگ کرتے ہیں، ایسا کرکے آپ یہ سمجھ سکیں گے کہ صہیونی عالمی قوانین اور اقدار کی ڈھٹائی سے خلاف ورزی کیوں کرتے ہیں۔ جو بھی ان پر تنقید کرنے کی جرأت کرتا ہے، اس پر یہود مخالف کا لیبل لگا دیا جاتا ہے۔
جب ایمسٹرڈیم میں پُرتشدد واقعات کی خبریں سامنے آنے لگیں تو مغربی میڈیا کے بڑے بڑے اداروں اور مغربی رہنماؤں، نیدرلینڈز کے بادشاہ، وزیراعظم سے لے کر یورپی یونین کے صدر، برطانوی سیکریٹری خارجہ تک، سب نے اس تصادم کے لیے ’یہود مخالف‘ حملے اور ’پوگروم‘ جیسی اصلاحات استعمال کیں۔
حیرت انگیز طور پر برطانوی خبررساں ادارہ ڈیلی میل پہلا میڈیا آؤٹ لیٹ تھا جس نے ان حملوں کے محرکات و وجوہات کی درست رپورٹنگ کی جس کے بعد دیگر ادارے بھی کسی حد تک ڈیلی میل کے نقشِ قدم پر چلنے لگے۔ سب سے پہلے اسکائی نیوز آگے آیا اور پھر بی بی سی کی بھی رپورٹنگ کے زاویے میں تبدیلی آئی۔ اس کے بعد امریکی نیٹ ورک این بی سی کی جانب سے تصادم کے مقام کی ویڈیو چلائی گئی جس نے ظاہر کیا کہ ہنگامے شروع ہونے کی وجوہات کیا بنیں۔
لیکن دی گارڈین اخبار جو میں گزشتہ 30 سالوں سے پڑھ رہا ہوں، اب میں اسے جانبدار سمجھتا ہوں کیونکہ اس کی شہ سرخی اور خبر اشتعال انگیز طور پر اسرائیل کی حمایت میں تھیں۔
حتیٰ کہ جب ایمسٹرڈیم کے پولیس چیف نے اسرائیلی فٹبال شائقین کی جانب سے لگائے گئے نعروں اور ان کے اقدامات کے بارے میں تفصیلات شیئر کیں کہ کیسے انہوں نے دو گھروں پر لگے فلسطینی پرچم کو پھاڑا، ایک کو نذرآتش کیا اور ٹیکسی کو توڑ پھوڑ کا نشانہ بنایا، یہ شاید دی گارڈین کے نزدیک کم اہم تھا اور اس نے پولیس چیف کے بیان کو ساتویں پیراگراف میں شامل کیا۔
اسرائیلی غیرمناسب الفاظ کے ساتھ نعرے لگاتے رہے کہ ’آئی ڈی ایف عرب کو تباہ کردے گی‘ اور ’غزہ میں کوئی اسکول نہیں کیونکہ وہاں تمام بچے مر چکے ہیں‘۔
اسرائیلی غنڈوں کے اقدامات پر ردعمل اس وقت سامنے آیا کہ جب ٹیکسی ڈرائیورز کے واٹس ایپ گروپ کے ذریعے لوگوں سے کہا گیا کہ وہ مکابی ’فینز‘ کے خلاف جمع ہوں۔ پولیس چیف نے میڈیا کو یہ بھی بتایا کہ اسرائیلی جو ایمسٹرڈیم میں اپنی ٹیم کو سپورٹ کرنے آئے تھے، بڑے مارجن سے شکست سے ایک رات پہلے ہی وہ شہر میں گھومتے ہوئے اشتعال انگیز نعرے لگا رہے تھے۔
یہ معاملہ اب میں آپ پر چھوڑتا ہوں کہ کیا ایمسٹرڈیم میں پُرامن اسرائیلیوں کو نشانہ بنانے کے لیے یہود مخالف لڑائیوں کا آغاز ہوا یا پھر نسل کشی کے حامی فٹبال شائقین ایمسٹرڈیم تصادم کا باعث بنے۔ تاہم ان پُرتشدد ہنگاموں نے ایک بار پھر اہم المیے سے دنیا کی توجہ ہٹا دی جوکہ اقوام متحدہ کا یہ بیان ہے کہ غزہ کے شہدا میں 70 فیصد خواتین اور بچے ہیں۔
یہ تحریر انگریزی میں پڑھیے۔