ارشد شریف قتل کیس: لارجر بینچ کی تشکیل کیلئے معاملہ 3 رکنی کمیٹی کو ارسال
سپریم کورٹ نے نامور صحافی ارشد شریف کے قتل کیس کو سپریم کورٹ (پریکٹس اینڈ پروسیجر) ایکٹ 2023 کے تحت تشکیل دی گئی 3 رکنی کمیٹی کو واپس بھیج دیا ہے تاکہ 5 رکنی بینچ اس کیس کو دوبارہ دیکھ سکے۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق جسٹس سید منصور علی شاہ کی سربراہی میں 3 رکنی بینچ نے کیس کی سماعت کی، عدالت نے کہا کہ یہ کیس چھوٹے بینچ کو بھیجا گیا ہے، حالانکہ اس سے قبل 5 ججوں پر مشتمل لارجر بینچ نے اس کی سماعت کی تھی۔
چونکہ اس سے قبل جسٹس جمال خان مندوخیل اور جسٹس محمد علی مظہر بھی لارجر بینچ کا حصہ تھے، لہذا ان دو ججوں کی دستیابی کے فیصلے کے بعد کیس کو سماعت کے لیے مقرر کیا جائے گا۔
یاد رہے کہ سابق چیف جسٹس آف پاکستان عمر عطا بندیال نے کینیا میں صحافی ارشد شریف کے قتل پر ازخود نوٹس کی کارروائی شروع کی تھی۔
رواں سال کیس میں اس وقت اہم پیشرفت ہوئی تھی جب کینیا کی ایک عدالت نے پاکستانی صحافی ارشد شریف کا قتل غلط شناخت کا نتیجہ قرار دینے کا پولیس کا دعویٰ مسترد کردیا تھا۔
کجیاڈو میں کینیا کی ہائی کورٹ نے فیصلہ دیا تھا کہ 2022 میں کینیا کے قانون نافذ کرنے والے اہلکاروں کے ہاتھوں پاکستانی ارشد شریف کا قتل غیر قانونی تھا، عدالت نے قانون نافذ کرنے والے ادارے اور سیکیورٹی ایجنسیوں کے خلاف تحقیقات کا حکم دیا تھا۔
کجیادو کی ہائی کورٹ نے اپنے فیصلے میں ارشد شریف کے پسماندگان کو ایک کروڑ شلنگ (کینیا کی کرنسی جس کی مالیت پاکستانی روپوں میں تقریبا 2 کروڑ 17 لاکھ روپے بنتی ہے) کی ادائیگی کا حکم بھی دیا ہے۔
پیر کو اٹارنی جنرل برائے پاکستان منصور عثمان اعوان نے عدالت کو بتایا کہ ارشد شریف کے قتل میں ملوث مشتبہ افراد تک رسائی کے لیے کینیا کے حکام سے باضابطہ مدد حاصل کرنے کے لیے میوچل لیگل اسسٹنس (ایم ایل اے) کا مسودہ تیار ہے۔
اٹارنی جنرل نے کہا کہ کابینہ کی اگلی میٹنگ میں ایم ایل اے کے مسودے کو منظوری دینے کی امید تھی۔
اس کے علاوہ، 13 جون، 2023 کو پچھلی سماعت پر، اے جی پی نے عدالت کو مطلع کیا تھا کہ ایک مناسب ایم ایل اے کا مسودہ تیار کیا جا رہا ہے جو منظوری کے لیے کابینہ کے سامنے رکھا جائے گا۔
جب عدالت نے پوچھا کہ کیا کینیا کی عدالت سے بھی فیصلہ آیا ہے تو اے جی پی نے اثبات میں جواب دیا، تاہم، سپریم کورٹ نے اس وقت کہا کہ عدالت کیس کے میرٹ میں نہیں جائے گی۔
سماعت کے موقع پر شوکت عزیز صدیقی نے عدالت کو یاد دلایا کہ انہوں نے صحافی کی والدہ کی جانب سے بھی درخواست دائر کی تھی۔ انہوں نے کہا کہ جو لوگ قتل کے پیچھے مجرموں سے باخبر ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں انہیں عدالت بلایا جائے۔
وکیل نے عدالت سے یہ بھی استدعا کی کہ معاملے کو دو ہفتوں کے اندر دوبارہ ٹھیک کیا جائے لیکن جسٹس منصور علی شاہ نے مشاہدہ کیا کہ کیس کو دوبارہ طے کرنا ججوں کی دستیابی پر منحصر ہے۔
بعد ازاں سماعت غیر معینہ مدت کے لیے ملتوی کر دی گئی۔
ارشد شریف قتل
ارشد شریف گزشتہ سال اگست 2022 میں اپنے خلاف کئی مقدمات درج ہونے کے بعد پاکستان چھوڑ گئے تھے، ابتدائی طور پر وہ متحدہ عرب امارات میں رہے، جس کے بعد وہ کینیا چلے گئے جہاں انہیں اکتوبر میں قتل کردیا گیا تھا۔
ابتدائی طور پر کینیا کے میڈیا نے مقامی پولیس کے حوالے سے کہا تھا کہ ارشد شریف کو پولیس نے غلط شناخت پر گولی مار کر ہلاک کر دیا، بعد میں کینیا کے میڈیا کی رپورٹس نے قتل سے متعلق واقعات کی رپورٹنگ کرتے ہوئے بتایا کہ ارشد شریف کے قتل کے وقت ان کی گاڑی میں سوار شخص نے پیراملٹری جنرل سروس یونٹ کے افسران پر گولی چلائی۔
اس کے بعد حکومت پاکستان نے تحقیقاتی ٹیم تشکیل دی جو قتل کی تحقیقات کے لیے کینیا گئی تھی۔
کینیا کے میڈیا میں فوری طور پر رپورٹس میں دعویٰ کیا گیا تھا کہ ارشد شریف کے قتل کا واقعہ پولیس کی جانب سے شناخت میں ’غلط فہمی‘ کے نتیجے میں پیش آیا۔
پولیس نے دعویٰ کیا تھا کہ ارشد شریف اور ان کے ڈرائیور نے ناکہ بندی کی مبینہ خلاف ورزی کی جس پر پولیس کی جانب سے فائرنگ کی گئی، سر میں گولی لگنے کی وجہ سے ارشد شریف موقع پر ہی جاں بحق ہوگئے جبکہ ان کے ڈرائیور زخمی ہوگئے۔
لیکن بعدازاں پاکستانی تفتیش کاروں کی ایک ٹیم نے کہا تھا کہ ارشد شریف کی موت منصوبہ بندی کے ساتھ کیا گیا قتل تھا۔
ارشد شریف کی بیوہ جویریہ صدیق نے کینیا پولیس یونٹ کے خلاف وہاں کی مقامی عدالت میں مقدمہ درج کیا گیا تھا۔
کینیا کی پولیس نے دعویٰ کیا تھا کہ ارشد شریف نیروبی کے باہر پولیس چیک پوسٹ پر نہیں رکے تھے لیکن ان کے اہل خانہ اور پاکستانی تفتیش کاروں نے اس مؤقف کو مسترد کرتے ہوئے کہا تھا کہ ارشد شریف کے قتل کا منصوبہ پاکستان میں بنایا گیا تھا۔