شام میں امریکا کو ترکیہ کی حمایت کی ضرورت پیش آئی گی، رجب طیب اردوان کی بڑی کامیابی ہے جبکہ ان کے پاس اپنے مفادات کے حصول کے لیے کلیدی فیصلے کرنے کا اختیار ہوگا۔
حلب پر حالیہ حملہ ایک ایسے وقت میں ہوا ہے کہ جب ایران، روس یا حزب اللہ سمیت بشارالاسد کے کسی بھی اتحادی کے پاس اتنے وسائل یا افواج نہیں کہ وہ فوری شام کی فورسز کی مدد کو آ سکیں۔
نشتر ہسپتال کو اپنی غفلت کا علم اکتوبر میں ہوا لیکن اس بات کے کوئی شواہد موجود نہیں کہ ایچ آئی وی کے مریضوں کے لیے مختص ڈائیلاسز مشینوں پر کتنے عرصے سے عام مریضوں کا بھی ڈائیلاسز کیا جارہا تھا۔
امریکا، اسرائیل کے حملوں کے باوجود لبنان میں فوری طور پر انتخابات کے انعقاد کے لیے دباؤ ڈال رہا ہے جبکہ لبنانی حکام کے خیال میں پارلیمنٹ کا اجلاس بلانے پر اسرائیل حملہ کرسکتا ہے۔
اسرائیل کو گمان تھا کہ یحییٰ سنوار کو شہید کرکے وہ مزاحمت کی تحریک کو ختم کرسکتے ہیں، وہ اب تک یہ نہیں سمجھ پائے کہ مزاحمت قیادت سے نہیں بلکہ ڈھائے جانے والے مظالم سے مضبوط ہوتی ہے۔
گزشتہ ہفتے اسلام آباد میں ایک پریس کانفرنس میں مقررین نے وفاقی حکومت سے مطالبہ کیا کہ وہ 'توہین رسالتﷺ کو کاروبار بنانے والے گروپ' کی سرگرمیوں کی تحقیقات کرے، کیا واقعی ایسا کوئی گروپ ہے؟
یہ قیاس آرائیں بھی کی جارہی ہیں کہ جنگ کے بعد اسرائیل اور امریکا غزہ کے علاقے مقامی قبائل میں تقسیم کردیں گے جبکہ حماس نے اس ممکنہ پیش کش کو بدنیتی پر مبنی قرار دیا ہے۔
امریکی ایوانِ نمائندگان میں ٹک ٹاک پر پابندی کا بل کثرت رائے سے منظور ہوگیا لیکن اگر اس معاملے پر غور کریں تو یہ اتنا امریکا کی قومی سلامتی کا مسئلہ نہیں جتنا یہ اسرائیل کی قومی سلامتی کا مسئلہ ہے۔
فلسطین میں ریپ اور منظم جنسی استحصال کے ثبوت سامنے آرہے ہیں لیکن مغربی میڈیا میں ان ثبوتوں پر کوئی بات نہیں ہوگی کیونکہ اس بار مرتکب اسرائیل جبکہ متاثرین فلسطینی ہیں۔
دنیا میں اپنی ہی حکومتوں کے خلاف آواز اٹھانے کا سلسلہ جاری ہے اور ایک دن ایسا آئے گا جب اسرائیل اور اس کے اتحادیوں کی پروپیگنڈا پھیلانے کی بھرپور کوشش کے باوجود یہ عوام کو اپنے مؤقف پر قائل نہیں کرپائیں گے۔
ورلڈ کپ کا قطر میں منعقد ہونا اور ایک عرب ٹیم کا سیمی فائنل تک رسائی حاصل کرنا یقیناً مسلم دنیا کے لیے بالعموم اور عرب دنیا کے لیے بالخصوص فخر کا باعث ہے۔