• KHI: Maghrib 5:46pm Isha 7:08pm
  • LHR: Maghrib 5:02pm Isha 6:29pm
  • ISB: Maghrib 5:02pm Isha 6:31pm
  • KHI: Maghrib 5:46pm Isha 7:08pm
  • LHR: Maghrib 5:02pm Isha 6:29pm
  • ISB: Maghrib 5:02pm Isha 6:31pm

ہائی کورٹ نے 50سال سے تعصب کی بنیاد پر بانٹی جانے والی نوکریوں کو روک دیا، خالد مقبول

شائع July 1, 2024
— فوٹو: ڈان نیوز
— فوٹو: ڈان نیوز

متحدہ قومی موومنٹ پاکستان کے رہنما خالد مقبول صدیقی نے کہا ہے کہ 50سال سے مایوسیوں سے دوچار مہاجروں نے اب ان نوکریوں کے لیے اپلائی کرنا ہی چھوڑ دیا تھا لیکن سندھ ہائی کورٹ کا فیصلہ امید کی کرن ہے اور 50سال سے تعصب، نفرت اور نسل پرستی کی بنیاد بانٹے جانے والی نوکریوں پر سندھ ہائی کورٹ نے ٹھہرو کی آواز لگائی ہے۔

کراچی میں دیگر رہنماؤں کے ہمراہ پریس کانفرنس کرتے ہوئے خالد مقبول صدیقی نے کہا کہ ہم سندھ ہائی کورٹ اور اس کے 30 جون 2024 کے فیصلے کے شکر گزار ہیں کیونکہ یہ فیصلہ ہماری قوم کی امید اور یقین سے جڑا ہوا ہے، 50 سال سے 56 ہزار نوکریاں جس طرح سے بانٹی جا رہی تھیں، جو دریائے تقسیم تھا، جو پہچان، شناخت، تعصب اور نسل پرستی کی بنیاد بنتی جاتی تھی اس پر عدالت نے ذرا ٹھہرو کی آواز لگائی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ 50سال سے مایوسیوں سے دوچار مہاجروں نے اب ان نوکریوں کے لیے اپلائی کرنا ہی چھوڑ دیا تھا کہ کوئی فائدہ ہی نہیں ہے، پاکستان کا آئین اور اصول کہتے ہیں کہ 1 سے 15 اسکیل کی نوکریاں صرف مقامی لوگوں کو دینی چاہئیں، گلی اور محلے کے لوگوں کو دینی چاہئیں اور اب 50سال بعد ہی صحیح یہ فیصلہ آیا جس پر قوم کو شکرانہ ادا کرنا چاہیے۔

وفاقی وزیر نے کہا کہ ان 50سالوں میں جو کچھ ہوا ہے وہ اچانک نہیں ہوا بلکہ یہ سب کچھ منظم سازش اور منصوبہ بندی کے تحت ہوا ہے، پاکستان کی تقسیم کے ذریعے دراصل پاکستان میں موجود دو توازن کو خراب کیا گیا، ایک طاقت اور تعداد کا توازن تھا، دوسرا جاگیرداروں اور صنعت کاروں کا توازن تھا۔

ان کا کہنا تھا کہ 16 دسمبر 1971 کو سانحہ سقوط ڈھاکا کے چند دن بعد 22 یا 23 دسمبر کو ذوالفقار علی بھٹو نے اقتدار سنبھالا اور انہوں نے اِدھر ہم، ادھر تم کا نفرت انگیز نعرہ لگا کر پاکستان کی تقسیم کی سازش پر سیاسی مہر ثبت کی تھی، اسمبلیوں میں جانے والوں کو ٹانگیں توڑنے کی دھمکیاں دینے والے ذولفقار علی بھٹو کو دوسرا کام یہ دیا گیا کہ تعداد کے بعد اب معیار پر ہاتھ ڈالا جائے۔

انہوں نے کہا کہ 22 دسمبر 1971 کو اقتدار سنبھالا تھا اور 2 جنوری 1972 کو نیشنلائزیشن کے نام پر تمام اسکول، کالجز، بینک، انشورنس کمپنیاں، صنعت، تجارت کو نیشنلائزیشن کے نام پر جاگیرداری کی نذر کردیا، قومیانے کے بجائے ہتھیا لیا گیا۔

متحدہ قومی موومنٹ پاکستان کے کنوینر نے کہا کہ اس وقت ایم کیو ایم جیسی کوئی جماعت ہوتی تو ہم کم از کم عدالتوں میں کھڑے ہوتے، سندھ واحد صوبہ تھا جہاں شہری اور دیہی کے بعد لسانی تقسیم بھی موجود تھی، جس پنجاب سے بھٹو نے سب سے زیادہ نشستیں لی تھیں وہاں کے دیہی علاقوں میں کوٹہ سسٹم رائج نہیں کیا، ایک نسل پرست حکمران اور نسل پرست حکومت نے اس نسل پرستی اور تعصب کو پہلے قانون کا سہارا دیا اور پھر آئین کا درجہ دیا۔

انہوں نے کہا کہ چیف جسٹس دیکھیں کہ پچھلے 50سالوں میں کراچی، حیدرآباد اور سکھر کے لیے سرکاری نوکریوں میں جو 40فیصد کوٹہ مختص تھا، اس میں سے کتنی نوکریاں دی گئی ہیں، سندھ کے شہری علاقوں کے جعلی ڈومیسائل بنوا کر ان 50سالوں میں تقریباً 80فیصد نوکریاں ہڑپ کی گئی ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ 18ویں ترمیم کو طاقت کی تقسیم کے لیے بنایا گیا تھا لیکن اس کے ذریعے طاقت حاصل کی گئی ہے اور اس نے جاگیردارانہ نظام کو بڑے بے رحمانہ طریقے سے طاقت فراہم کی ہے، پہلے کوٹہ سسٹم اس جاگیردارانہ نظام کو بچانے کے لیے بنایا گیا تھا، جن سندھ کے دیہاتوں میں پرائمری اسکول موجود نہیں تھے، وہ کسان کے بچے میڈیکل کالجز میں کہاں سے جا سکتے تھے، اگر کسی ہاری یا کسان کا بیٹا ڈاکٹر، انجینئر یا ڈپٹی کمشنر بن گیا ہوتا تو ہمیں لگتا کہ ہماری قربانی کا کسی کو فائدہ پہنچا ہے لیکن 50سال ہم پر کیا گیا وہ ظلم جاگیردارانہ نظام بن کر سب سے بدترین شکل میں سندھ میں موجود ہے۔

اس موقع پر فاروق ستار نے کہا کہ کوٹہ سسٹم کے باعث سندھ کی قوموں میں خلیج پیدا ہوئی، سندھ کوٹہ سسٹم سے متعصبانہ غیرمنصفانہ مقاصد حاصل کیے گئے۔

ان کا کہنا تھا کہ سندھ صوبے کو کوٹہ سسٹم کی وجہ سے منزل تک پہنچنے سے روکا گیا، اسی فیصد سے زائد ہمارے کوٹے کی نوکریاں یہاں کے نوجوانوں کو نہیں ملیں، ہم 50 سالوں میں کوٹہ سسٹم کے ناجائز استعمال کو ختم نہیں کروا سکے لیکن خالد مقبول کی قیادت میں ہم نے کوٹہ سسٹم کے جاگیردارانہ اور متعصبانہ استعمال کو ختم کیا۔

فاروق ستار نے کہا کہ سندھ ہائی کورٹ نے ہمارے مؤقف کی تائید کی ہے اور ایم کیو ایم نے جاگیردارانہ اور متعصبانہ نظام کےخلاف سفر کا آغاز کیا۔

کارٹون

کارٹون : 17 دسمبر 2024
کارٹون : 16 دسمبر 2024