’کاش ہمارے بلے باز نسیم شاہ کی طرح پُراعتماد شاٹس کھیل جاتے‘
پاکستانی کرکٹ ٹیم کے بارے میں مشہور ہے کہ یہ توقع کے خلاف نتائج دیتی ہے۔ جب اس ٹیم سے جیت کی کوئی امید نہ ہو تو یہ شیروں کی طرح حملہ کرتی ہے اور جیت جاتی ہے اور جہاں ان سے اچھے کھیل کی امید ہو، وہاں ہمارے کھلاڑی ڈھیر ہوجاتے ہیں۔
پاکستانی کرکٹ شائقین اس سلسلے میں اکثر ناصر حسین کی 2017ء چمپئینز ٹرافی فائنل کی کامنٹری کو یاد کرتے ہیں کہ جب محمد عامر کی گیند پر پہلے اظہر علی نے ویرات کوہلی کا کیچ چھوڑا لیکن اگلی ہی گیند پر شاداب خان نے عمدہ کیچ پکڑ کر کوہلی کو پویلین لوٹا دیا۔ بیشتر کرکٹ ماہرین اور تجزیہ کار بھی ہر بڑے ٹورنامنٹ میں پاکستانی ٹیم کے بارے میں کوئی بھی اندازہ لگانے سے ہچکچا رہے ہوتے ہیں۔
لیکن پچھلے کچھ عرصے سے پاکستانی ٹیم کے بارے میں یہ تاثر کم ہوتا جارہا ہے۔ اب پاکستانی ٹیم کا حال یہ ہوچکا ہے کہ وہ ایسے میچز میں تو کئی بار شکست کا شکار ہورہی ہے جہاں ان سے جیت کی توقع کی جاتی ہے لیکن بڑی ٹیموں کے خلاف جیت اب شاذ و نادر ہی دیکھنے کو ملتی ہے۔ اب پاکستانی ٹیم کے بارے میں یہ اعتماد کے ساتھ کہا جاسکتا ہے کہ جہاں بھی یہ ٹیم دباؤ کا شکار ہوئی تو سمجھ جائیں کہ اب شکست دور نہیں۔
سچ تو یہ ہے کہ ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ کے پہلے میچ میں امریکا کے ہاتھوں ایک غیرمتوقع شکست کے بعد شائقین کرکٹ کو بابر اینڈ کمپنی سے کچھ خاص امیدیں باقی نہیں رہی تھیں۔ خاص طور پر جب دوسرے میچ میں پاکستانی ٹیم کے سامنے بھارتی ٹیم تھی جسے پاکستانی ٹیم کسی بھی ورلڈ کپ میچ میں صرف ایک بار ہی شکست دے سکی ہے۔ ایسے میں پاکستانی شائقین کرکٹ اور تجزیہ کار پاکستانی ٹیم سے کچھ خاص امیدیں وابستہ نہیں کیے ہوئے تھے۔ سالوں میں پہلی بار بھارت، پاکستان میچ کا جوش و جذبہ بھی کافی کم کم تھا۔
پاک-بھارت کا یہ میچ نیویارک میں ہونا تھا جہاں اب تک کھیلے گئے تمام میچز میں بڑے اسکور نہیں بن سکے تھے۔ پاکستانی میچ سے ایک دن قبل نیدرلینڈز نے جنوبی افریقہ کے لیے 104 کا ہدف مشکل بنا دیا تھا تو اس پچ پر بڑے اسکور کی توقعات کم ہی تھیں۔ میچ سے قبل ہونے والی بارش نے بھی ٹاس کا فیصلہ آسان بنادیا اور بابر اعظم نے ٹاس جیت کر پہلے فیلڈنگ کا فیصلہ کیا۔
ٹاس کی فتح سے ٹیم اور شائقین کرکٹ کا حوالہ کچھ بڑھا تو پاور پلے میں ہی ویرات کوہلی اور روہت شرما کی وکٹوں نے اس حوصلے میں مزید اضافہ کردیا۔ ویرات کوہلی کی ٹی ٹوئنٹی کرکٹ میں پاکستان کے خلاف یہ پہلی ناکامی تھی۔ نسیم شاہ بہتر لینتھ پر باؤلنگ کررہے تھے تو دوسری جانب سے محمد عامر نے رشبھ پنٹ کو ایک شاندار اوور کروایا۔ اس اوور میں رشبھ بار بار خوش قسمت رہے، دو بار گیند ایج سلپ کے اوپر سے گیا تو ایک بار پوائنٹ کے فیلڈر باوجود کوشش کے، گیند کو کیچ نہ کرسکے۔
حارث رؤف کے پہلے اوور میں تین چوکے لگے تو ایسا لگا کہ شاید آج حارث رؤف ایک بار پھر زیادہ رنز دینے والے ہیں۔ تین وکٹیں جلد گر جانے کے باوجود رشبھ پنٹ اور اکشر پٹیل کے درمیان بنی اچھی شراکت داری کے دوران ایسا لگ رہا تھا کہ بھارتی بلے باز اسکور کو 160 سے اوپر لے جا سکتے ہیں لیکن وہاں سے پاکستانی باؤلرز نے اپنی شاندار باؤلنگ کا مظاہرہ کیا۔ پہلے محمد عامر اور پھر حارث رؤف نے دو گیندوں پر دو وکٹیں حاصل کیں اور بھارتی ٹیم کو 119 رنز پر ہی روک لیا۔ بھارتی اننگ کی خاص بات یہ تھی کہ پاکستان کی جانب سے شاداب خان کو باؤلنگ کے لیے نہیں لایا گیا جبکہ افتخار کو ایک اوور ضرور دیا گیا۔
حارث رؤف نے پہلے خراب اوور کے بعد شاندار واپسی کی تو نسیم شاہ فٹنس حاصل کرنے کے بعد پہلی بار اپنی لینتھ حاصل کرنے میں کامیاب نظر آئے۔ محمد عامر بھی شاندار لائن اور لینتھ پر باؤلنگ کرتے نظر آئے لیکن وہ اتنا ہی بدقسمت بھی رہے۔
120 کا ہدف زیادہ تو نہیں تھا لیکن ایسی پچ پر ایک دن پہلے نیدرلینڈز نے شاندار باؤلنگ کرتے ہوئے جنوبی افریقہ کے لیے 104 کا ہدف بھی مشکل بنا دیا تھا۔ ایسے میں امریکا کے خلاف اچھا کھیل پیش نہ کر پانے والے پاکستانی بلےبازوں سے کیا توقع کی جا سکتی تھی؟ پاکستانی بلے بازوں میں سے کوئی بھی پُراعتماد بیٹنگ کا مظاہرہ کرنے میں ناکام رہا لیکن اس کے باوجود پاکستانی ٹیم فخر زمان کی وکٹ گرنے تک میچ پر حاوی تھی۔
پاکستان کا موجودہ اور مطلوبہ رن ریٹ تقریباً برابر ہی چل رہا تھا لیکن فخر کی وکٹ گرتے ہی پاکستانی بیٹنگ سے مومینٹم جاتا رہا۔ شاید یہ مومینٹم واپس حاصل کرلیا جاتا لیکن محمد رضوان جسپریت بمراہ کی گیند پر ایک ایسا شاٹ کھیل گئے جس کی ان سے توقع تھی اور نہ ہی ایسا غیر ذمہ دارانہ شاٹ کھیلنے کی کوئی ضرورت تھی۔ پاکستانی ٹیم کو چھ اوورز میں 40 رنز درکار تھے اور بمراہ کے دور اوورز باقی تھے۔ ایسے میں بمرا کی گیند کو لیگ سائڈ پر لپیٹنے کے بجائے اس اوور میں چار پانچ رنز بنا کر باقی باؤلرز پر اٹیک کرنے کی ضرورت تھی۔
لیکن غلط شاٹ کھیلنے والے محمد رضوان اکیلے نہ تھے، اس سے قبل بمراہ ہی کی گیند پر بابر اعظم سلپ پر فیلڈر کی موجودگی میں تھرڈ مین پر شاٹ کھیلتے ہوئے وکٹ گنوا بیٹھے تھے۔ اپنے پاؤں پر کلہاڑی مارنا یا اپنی موت کو خود دعوت دینا جیسے محاورے شاید ایسی ہی شاٹس کو دیکھ کر لکھے گئے ہوں گے۔ بھارت کے خلاف بابر اعظم 2021ء کے ٹی ٹوئنٹی ورلڈکپ میں کھیلی گئی ایک اننگ کے علاوہ ابھی تک ناکام ہی رہے ہیں۔
ہاردک پانڈیا نے پاکستانی بلے بازوں کی شاٹ پچ گیندوں پر کمزوری کا خوب فائدہ اٹھایا اور فخر زمان اور شاداب خان نے پانڈیا کو ہرگز مایوس نہ کیا۔ دونوں ایسی شاٹس کھیلتے ہوئے وکٹ گنوا بیٹھے جسے شاید کلب لیول پر بھی اب کوئی بلے باز نہ کھیلتا ہو۔
لیکن یہاں تک کم از کم ہٹ لگانے کی کوشش کی جارہی تھی اور ابھی مطلوبہ رن ریٹ ہاتھ سے نکلا نہ تھا لیکن کریز پر موجود عماد وسیم شاید اسے 50 اوورز کا میچ سمجھ بیٹھے۔ شاداب کی وکٹ گرنے تک عماد وسیم نے 15 گیندوں پر 9 رنز بنائے تھے اور اس کے بعد بھی کچھ نہ بدلا۔ دوسری جانب آنے والے افتخار احمد تو عماد وسیم سے بھی آگے نکل گئے کہ جنہیں سراج نے فری ہٹ کا تحفہ دیا تو اس پر افتخار دو رنز ہی بنا سکے۔ پھر جب جسپریت بمراہ نے دو فل ٹاسز پھینکیں تو پہلی پر بہ مشکل ایک لیگ بائی کا اسکور بنانے کے بعد دوسری پر کیچ تھمایا اور چلتے بنے۔
آخری اوور میں نسیم شاہ کی کریز پر آمد ہوئی تو کئی اوورز کے بعد پہلی بار کسی پاکستانی بلے باز نے اعتماد کے ساتھ کوئی شاٹ کھیلی۔ نسیم شاہ نے اسکوپ کرتے ہوئے فائن لیگ اور پھر کورز پر ایک چوکا تو ضرور لگایا لیکن جس وقت اس کی کریز پر آمد ہوئی تو اس وقت صرف پانچ گیندوں پر 18 رنز درکار تھے۔ شاید پہلے بلے باز اسی اعتماد سے ایک دو شاٹس کھیل جاتے تو نسیم شاہ کی پویلین واپسی آنسوؤں کے ساتھ ہوتی بھی تو وہ خوشی کے آنسو ہوتے۔
پاکستانی ٹیم کا اگلے مرحلے میں پہنچنا ابھی ناممکن تو نہیں لیکن پاکستانی ٹیم کی اب تک کی کارکردگی دیکھ کر یہ ناممکن ہی لگ رہا ہے۔ پاکستان کو اپنے دونوں میچز اچھے مارجن کے ساتھ جیتنا ہوں گے اور ساتھ ہی اگلے دونوں میچز میں امریکا کی شکست کی توقع بھی رکھنا ہوگی۔ ایک بھی میچ بارش کی نذر ہونے کا مطلب پاکستانی ٹیم کی اگلی راؤنڈ تک رسائی کا امکان ختم۔
پاکستانی ٹیم اگلے مرحلے میں پہنچتی ہے یا نہیں، اس کا پتا تو چند دنوں تک لگے گا لیکن اس بار پاکستانی کرکٹ شائقین کچھ اس حد تک ٹیم سے مایوس ہوچکے کہ وہ ٹیم کے اگلے مرحلے تک رسائی کے امکانات پر بات سننا بھی پسند نہیں کررہے۔