بھارتی کسانوں کا احتجاج چوتھے روز بھی جاری، حکومتی وزرا سے مذاکرات کے منتظر
اناج کی قیمتوں میں اضافے کے مطالبے کے لیے کسانوں کا احتجاج آج چوتھے روز بھی جاری ہے تاہم حکومتی وزرا سے ملاقات جاری رہنے کی وجہ سے کسانوں نے دہلی کی طرف مارچ روک دیا گیا ہے۔
غیر ملکی خبر رساں ادارے رائٹرز کی رپورٹ کے مطابق احتجاج کرنے والے کسان حکومتی ورزا سے مذاکرات کے منتظر ہیں۔
وزیر زراعت ارجن منڈا نے وزیر تجارت پیوش گوئل اور وزیر مملکت برائے داخلہ نتیانند رائے کے ساتھ جمعرات (15 فروری) کو کسانوں کے نمائندوں سے ملاقات کی۔ وزیر زراعت نے اس ملاقات کو مثبت پیشرفت قرار دیا تھا۔
وزیر زراعت نے میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’بات چیت کو جاری رکھنے کے لیے اگلی ملاقات اتوار 18 فروری شام 6 بجے ہوگی، ہمیں امید ہے کہ ہم سب مل کر ایک پرامن حل تلاش کریں گے‘۔
احتجاجی لیڈر جگجیت سنگھ دلیوال نے بھی صحافیوں کو بتایا کہ کسان فی الحال اپنا مارچ روک رہے البتہ احتجاج جاری رہے گا۔
انہوں نے کہا کہ ’چونکہ کسان یونین کی حکومتی اراکین سے ملاقات شروع ہوچکی ہے اور اگر ہم دہلی کی طرف اپنا مارچ جاری رکھیں تو ملاقات کیسے ہوگی؟ انہوں نے زور دیتے ہوئے کہا کہ ان کا احتجاج پرامن طریقے سے جاری رہے گا‘۔
دوسری جانب بھارتی پولیس نے دہلی اور مضافات میں ایک مہینے کے لئے دفعہ 144 نافذ کر دی ہے، دہلی آنے والے تمام راستوں پر روکاوٹیں کھڑی کر دیں ہیں، بھارتی کسانوں نے آج سے پنجاب بھر میں ریلوے سروس معطل کرنے کا اعلان کردیا ہے۔
یاد رہے کہ رواں ہفتے کے شروع میں 13 فروری کو بھارتی پولیس نے کسانوں پر آنسو گیس فائر کیے جو رکاوٹوں کو عبور کرکے فصلوں کی زیادہ قیمتوں میں اضافے کے لیے دارالحکومت نئی دہلی کی طرف مارچ کر کررہے تھے۔
کسانوں نے ’دہلی چلو‘ مارچ کی کال دے رکھی ہے، بھارتی کاشت کاروں نے 2021 میں بھی ایسا ہی احتجاج کیا تھا، کاشت کار یوم جمہوریہ کے موقعے پر رکاوٹیں توڑتے ہوئے شہر میں داخل ہو گئے تھے۔
یہ مظاہرے بھارت میں عام انتخابات کے انعقاد سے چند ماہ قبل شروع ہوئے ہیں جن میں وزیر اعظم نریندر مودی تیسری بار وزیراعظم بننے کے خواہاں ہیں۔
گزشتہ روز (15 فروری کو ) بھارتی پولیس نے اپنے حق کے لیے احتجاج کرنے والے کسانوں پر ڈرونز کے ذریعے آنسو گیس شیلز کی برسات کی تو کسانوں نے پتنگوں کے ذریعے ڈرونز گرانا شروع کر دیے۔