’10 سال سزا کا سیکشن کیسے لگا؟‘ سائفر کیس کے فیصلے پر قانونی ماہرین کی رائے
سائفر کیس میں بانی پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) عمران خان اور سابق وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کو دس، دس سال قید با مشقت کی سزا سنائی گئی۔
آفیشل سیکرٹ ایکٹ کے تحت بننے والی عدالت کے جج ابو الحسنات محمد ذوالقرنین نے ملزمان کی موجودگی میں مختصر فیصلہ جاری کرتے ہوئے سزا سنائی۔
خصوصی عدالت کے اس فیصلے پر قانونی ماہرین کیا رائے رکھتے ہیں، اس پر ایک نظر ڈالتے ہیں۔
ماہر قانون اشتر اوصاف نے نجی ٹی وی چینل جیو نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ایسے معاملات میں سخت سے سخت سزائیں دینی چاہئیں۔
ان کا کہنا تھا کہ سائفر کیس میں بانی پی ٹی آئی اور شاہ محمود قریشی کے پاس اپیل کا حق موجود ہے لیکن ٹرائل کورٹ کی حد تک کیس ختم ہوگیا ہے، جب تک سزا معطل نہیں ہوجاتی ان کو دس سال کی سزا رہے گی۔
مزید کہا کہ کیس میں سرکاری وکلا کی تعیناتی کوئی انہونی بات نہیں ہے، جب وکلا صفائی آپ کی ہدایات پر معاملے کو ٹالنے کی کوشش کرتے ہیں تو ایسا ہوتا ہے، ملکی سالمیت اسی طرح ہے کہ ایک انسان کا قتل پوری انسانیت کا قتل ہے تو ملکی سالمیت کی بات پورے ملک سے غداری کے مترادف ہے، اس کیس میں دس سال سزا کم ہے، ایسے معاملات میں سخت سے سخت سزائیں دینی چاہیے۔
’سائفر کا خفیہ دستاویز ہونا، تسلیم شدہ حقیقت‘
ایڈووکیٹ راجا خالد نے ڈان نیوز سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ اس کیس میں بانی پی ٹی آئی اور سابق وزیر خارجہ کے پاس اپیل کے لیے اگلا پلیٹ فارم ہائی کورٹ موجود ہے، اس کے بعد سپریم کورٹ میں بھی اپیل کی جاسکتی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ یہ کیس آسان تھا، جج صاحب کو فیصلہ دیتے ہوئے زیادہ مشکل نہیں ہوئی ہوگی کیونکہ سائفر کا خفیہ دستاویز ہونا ایک تسلیم شدہ حقیقت تھی، اسے ایک پبلک میٹنگ میں دکھایا گیا، لہرایا گیا اور اس کے مواد کو شیئر کیا جانا بھی تسلیم شدہ ہے، سابق وزیر اعظم نے اسی اس وقت ایک عوامی اجتماع میں سائفر لہرایا تھا۔
مزید بتایا کہ پھر ان کے خاص گواہ اس وقت کے پرنسپل سیکریٹری اعظم خان کا 164 سی آر پی سی کا بیان قلمبند ہوا اور اس بیان کی قانون کی نظر میں بہت اہمیت ہوتی ہے، پھر جو سابق سفیر اسد مجید نے بتایا کہ امریکا کی طرف سے کوئی بھی دھمکی نہیں دی گئی ہے، اس میں کوئی اس طرح کی بات نہیں تھی۔
ایڈووکیٹ راجا خالد نے واضح کیا کہ سابق سیکریٹری خارجہ سہیل محمود کا بیان بھی خاصا اہم تھا، انہوں نے بھی بتایا کہ سائفر عمران خان کے پاس ہے اور واپس ہمیں نہیں ملا اور اس کی تائید اعظم خان نے بھی کی اور خان صاحب کا خود بھی ایک ویڈیو کلپ وائرل ہوا تھا، جس میں انہوں نے مانا تھا کہ سائفر گم ہوگیا ہے۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ اسلام آباد ہائی کورٹ کی اس معاملے کو ایک ماہ میں نمٹانے کی واضح ہدایات کے باوجود اس کا جو ٹرائل ہوا اسے طول دیا گیا۔
’سمجھ سے باہر ہے، کس طرح 10 سال کی سزا سنائی گئی‘
قانونی ماہر معیز جعفری نے ڈان نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے اس حوالے سے بتایا کہ اس کیس میں ٹرائل کورٹ ایک غیر ضروری حد تک جلدی کا مظاہرہ کر رہا تھا، جس طرح جرح ہوئی جس طرح گواہان کے بیانات قلمبند کیے گئے اور جس طرح خان صاحب کے وکلا نے اس عدالت پر عدم اعتماد کا اظہار کیا۔
انہوں نے مزید کہا کہ جو ضمانت کی کوشش تھی اس ٹرائل میں وہاں اس بات کا اظہار ہوا کہ جو سائفر کے حوالے سے سخت ترین سزائیں ہیں وہ اس کیس میں نہیں لگتی کیونکہ اس کیس میں باقاعدہ طور پر مل کر ایک سازش کر کے ملک کو نقصان پہنچانے کا الزام مرکزی نہیں تھا بلکہ الزام تو یہ تھا کہ آپ نے غفلت سے سائفر گم کردیا جس پر ایک بالکل الگ سیکشن عائد ہوتی ہے اور اس کی ایک بالکل الگ سزا ہے۔
معیز جعفری مزید کہا کہ حکم آنے کے بعد ہی اس معاملے پر سحر حاصل گفتگو ہوسکے گی، مگر میری سمجھ سے باہر ہے کہ کس طرح 10 سال کی سزا سنائی گئی ہے۔
انہوں نے بتایا کہ ایک طریقے سے قانونی کارروائی ہوتی نظر آنی چاہیے، پچھلے تین دنوں میں جو کارروائی ہوئی ہے اس کیس میں اس پر ہر طرف سے تنقید کی جا رہی ہے، بات صرف جلد بازی کی نہیں بات تو یہ ہے کہ یہ 10 سال سزا کا سیکشن اس پر لگا کیسے؟ کیونکہ قانون کے اندر جو معیار ہے اس میں ایک تو یہ ہے کہ آپ نے غفلت برتی اور اس کی وجہ سے اسٹیٹ سیکریٹ لیک ہوگیا اور یہی بنیادی وجہ تھی، لیکن ایک معیار کہ آپ نے مل کر کسی دشمن ملک کے ساتھ سازش کرتے ہوئے کچھ کیا ، اگر یہ والی چیزیں ہوئی ہوتی تو بڑی سزائیں لاگو کی جاتی ہیں، اس قانون میں 2،3 سال کی سزا ہوسکتی ہے مگر 10 سال نہیں۔
’اس معاملے سے پاکستان امریکا کے تعلقات میں کافی تناؤ آیا‘
ماہر قانون حافظ احسان ایڈووکیٹ نے جیو نیوز سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ جو اس وقت ٹرائل کورٹ کا فیصلہ ہے اس پر اپیل کی جاسکتی ہے، لیکن اہم یہ بات ہے کہ جو تنازع پاکستان میں 27 مارچ 2022 سے چل رہا تھا اور وہ جو ایک میٹنگ تھی جس میں ہمارے سیکریٹری خارجہ بھی تھے اور جو اسے ایک سازش کا نام دیا گیا یا رجیم چینج کا نام دیا گیا اور اس کے بعد جو تحریک عدم اعتماد آئی اور جو عوام میں ایک بیانیہ بنایا گیا عوام میں وہ ساری چیزیں ایسی تھی جس کی اجازت آئین وزیر اعظم کو نہیں دیتا کیونکہ وزیر اعظم ہونے کی حیثیت سے جو بھی چیز آپ کے علم میں آئے خاص کر کے قومی سالمیت کے حوالے سے تو دنیا میں کہیں بھی آپ اس کو منظر عام پر نہیں لاسکتے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ اس معاملے میں 3 شواہد بہت خاص تھے ایک اعظم خان کا بیان، ایک آڈیو جس میں کہا گیا کہ ہم اسے سیاسی مقصد کے لیے استعمال کرتے ہیں اور اسد مجید اور سہیل محمود کے بیانات، اس معاملے سے پاکستان امریکا کے تعلقات میں کافی تناؤ آیا ہے۔