• KHI: Asr 4:12pm Maghrib 5:49pm
  • LHR: Asr 3:27pm Maghrib 5:04pm
  • ISB: Asr 3:26pm Maghrib 5:04pm
  • KHI: Asr 4:12pm Maghrib 5:49pm
  • LHR: Asr 3:27pm Maghrib 5:04pm
  • ISB: Asr 3:26pm Maghrib 5:04pm

توشہ خانہ فوجداری کیس: عمران خان کی فیصلہ معطلی کی درخواست پر فیصلہ محفوظ

شائع December 11, 2023
اسلام آباد ہائیکورٹ نے فریقین کے دلائل کے بعد فیصلہ محفوظ کیا ہے — فائل فوٹو: فیس بک
اسلام آباد ہائیکورٹ نے فریقین کے دلائل کے بعد فیصلہ محفوظ کیا ہے — فائل فوٹو: فیس بک

اسلام آباد ہائی کورٹ نے توشہ خانہ فوجداری کارروائی کیس کا سیشن کورٹ کا مکمل فیصلہ معطل کرنے کی سابق چیئرمین پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کی درخواست پر فیصلہ محفوظ کر لیا۔

اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس عامر فاروق اور جسٹس طارق محمود جہانگیری نے توشہ خانہ فوجداری کارروائی کیس کا سیشن کورٹ کا مکمل فیصلہ معطل کرنے کی درخواست پر سماعت کی۔

یاد رہے کہ ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن کورٹ اسلام آباد کے جج ہمایوں دلاور نے عمران خان کے خلاف توشہ خانہ کے حوالے سے الیکشن کمیشن کی درخواست پر فیصلہ سناتے ہوئے انہیں 3 سال قید کی سزا سنانے کے ساتھ ایک لاکھ روپے جرمانہ بھی عائد کر دیا تھا۔

آج کیس کی سماعت کے دوران بانی پی ٹی آئی کی بطور رکن اسمبلی نااہلی کا 8 اگست کا نوٹی فکیشن عدالت میں پیش کیا گیا۔

الیکشن کمیشن کے وکیل امجد پرویز نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ 5 اگست کو توشہ خانہ فوجداری مقدمے میں عمران خان کو تین سال قید کی سزا سنائی گئی تھی جس کے نتیجے میں الیکشن کمیشن نے بانی پی ٹی آئی کو پانچ سال کے لیے نااہل کیا تھا، پاکستانی قانون میں فیصلہ معطل ہو سکتا ہے یا نہیں اس سے متعلق ایک ہی فیصلہ ہے جہاں اس ایشو پر بات کی گئی ہے۔

عدالت نے استفسار کیا کہ سیکشن 426 میں فیصلہ معطلی کا ذکر نہیں جس پر وکیل امجد پرویز نے کہا کہ سی آر پی سی میں فیصلے سے متعلق الگ باب ہے۔

عدالت نے استفسار کیا کہ قانون میں سزا معطلی کے متعلق جو لکھا گیا ہے اس کا کیا مطلب ہے؟ جس پر امجد پرویز نے مؤقف اپنایا کہ میرا خیال ہے سزا معطلی سے فیصلہ معطل نہیں ہو سکتا، سزا معطل کرتے ہیں تو رہائی کا حکم دیتے ہیں، پاکستانی فوجداری قانون میں فیصلہ معطلی کا تصور ہی نہیں، عدالتی نظیر موجود ہیں کہ فیصلہ معطل نہیں ہو سکتا کالعدم ہوسکتا ہے۔

امجد پرویز نے لاہور ہائی کورٹ میں اسی ریلیف کے لیے درخواست دائر ہونے کا اعتراض اٹھاتے ہوئے کہا کہ میڈیا سے معلوم ہوا ہے کہ الیکشن کمیشن کے نااہلی کے نوٹی فکیشن کے خلاف لاہور ہائی کورٹ میں درخواست دائر کی جا چکی اور لاہور ہائی کورٹ کے سنگل بینچ نے سماعت کر کے معاملہ پانچ رکنی بینچ کو بھیج دیا ہے، استدعا ہے کہ اس عدالت میں یہ درخواست قابل سماعت نہیں ہے۔

بانی پی ٹی آئی کے وکیل سردار لطیف کھوسہ نے مؤقف اپنایا کہ مجھے تو حیرت ہے کہ الیکشن کمیشن اس حد تک جا سکتا ہے، ان کی انا کی تسکین ہوگی اگر بانی پی ٹی آئی پارٹی سربراہ نہیں رہے، مجھے یاد ہے کہ پرویز مشرف کی بھی خواہش تھی کہ نواز شریف اور بے نظیر بھٹو پارٹی سربراہ نہ ہوں۔

ان کا کہنا تھا کہ نواز شریف نے جاوید ہاشمی کو صدر مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی نے مخدوم امین فہیم کو صدر بنایا تھا، جاوید ہاشمی کے کیس میں سزا اور فیصلہ معطلی کی بات کی گئی ہے، سپریم کورٹ کے تین ججز نے فیصلہ دیا تھا کہ سزا کے ساتھ فیصلہ بھی معطل ہوتا ہے، لطیف کھوسہ نے کہا کہ میں نے ریکارڈ پر کہا تھا کہ سزا کے ساتھ فیصلہ بھی معطل کریں۔

عدالت نے فریقین کے دلائل سننے کے بعد عمران خان کی توشہ خانہ فوجداری کارروائی کیس میں سیشن کورٹ کا مکمل فیصلہ معطل کرنے کی درخواست پر فیصلہ محفوظ کر لیا۔

یاد رہے کہ عمران خان نے وکیل لطیف کھوسہ کے توسط سے اسلام آباد ہائی کورٹ میں درخواست دائر کی تھی جس میں 5 اگست کا ٹرائل کورٹ کا فیصلہ معطل کرنے کی استدعا کی تھی۔

درخواست میں استدعا کی گئی تھی کہ اسلام آباد ہائی کورٹ نے توشہ خانہ کیس میں چیئرمین پی ٹی آئی کی صرف سزا معطل کی، عدالت عالیہ، ٹرائل کورٹ کا مکمل فیصلہ معطل کرنے کا حکم دے۔

درخواست میں مزید استدعا کی گئی کہ الیکشن کمیشن کے وکیل کی جانب سے اعتراض کیا گیا کہ درخواست میں ریاست کو فریق نہیں بنایا گیا، عدالت فیصلہ معطلی کی درخواست میں ترمیم کرکے ریاست کو فریق بنانے کی اجازت دے۔

خیال رہے کہ الیکشن کمیشن آف پاکستان نے توشہ خانہ کیس میں عمران خان کو نااہل قرار دینے کا فیصلہ سنانے کے بعد کے ان کے خلاف فوجداری کارروائی کا ریفرنس عدالت کو بھیج دیا تھا، جس میں عدم پیشی کے باعث ان کے ناقابل ضمانت وارنٹ گرفتاری جاری ہوئے تھے۔

بعد ازاں ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن کورٹ اسلام آباد کے جج ہمایوں دلاور نے عمران خان کے خلاف الیکشن کمیشن کی درخواست پر فیصلہ سناتے ہوئے اپنے مختصر فیصلے میں جج ہمایوں دلاور نے کہا تھا کہ ’عدالت مطمئن ہے کہ درخواست گزار (الیکشن کمیشن) نے مؤثر اور مصدقہ ثبوت پیش کیے اور ملزم کے خلاف جرم ثابت ہوگیا کہ انہوں نے توشہ خانہ سے حاصل کردہ تحائف اور 19-2018 اور 20-2019 کے دوران استعمال میں لا کر بنائے گئے اثاثوں کی جھوٹی ڈیکلریشن کے ذریعے کرپٹ پریکٹسز کا ارتکاب کیا‘۔

جج نے کہا تھا کہ عمران خان نے اثاثہ جات اور اخراجات کے حوالے سے فارم بی میں ’غلط ڈیکلریشن‘ فراہم کیا جو 21-2020 میں الیکشن کمیشن میں جمع کرائی گئی۔

فیصلے میں کہا گیا تھا کہ ’وہ قومی خزانے سے حاصل کردہ منافع بخش چیزوں کو ارادتاً چھپاتے ہوئے کرپٹ پریکٹسز کے مرتکب قرار پائے گئے ہیں، انہوں نے توشہ خانہ سے حاصل کیے گئے تحائف کی تفصیلات فراہم کرتے ہوئے دھوکا دہی کی کیونکہ وہ بعد میں غلط ثابت ہوگئیں‘۔

مزید کہا گیا کہ ’ان کی بددیانتی بغیر کسی شک و شبہے کے ثابت ہوچکی ہے‘۔

گزشتہ برس اگست میں حکمراں اتحاد کے 5 ارکان قومی اسمبلی کی درخواست پر اسپیکر قومی اسمبلی نے سابق وزیراعظم عمران خان کی نااہلی کے لیے توشہ خانہ ریفرنس الیکشن کمیشن کو بھجوایا تھا۔

ریفرنس میں الزام عائد کیا گیا تھا کہ عمران خان نے توشہ خانہ سے حاصل ہونے والے تحائف فروخت کرکے جو آمدن حاصل کی اسے اثاثوں میں ظاہر نہیں کیا۔

آئین کے آرٹیکل 63 کے تحت دائر کیے جانے والے ریفرنس میں آرٹیکل 62 (ون) (ایف) کے تحت عمران خان کی نااہلی کا مطالبہ کیا گیا تھا۔

کیس کی سماعت کے دوران عمران خان کے وکیل بیرسٹر علی ظفر نے مؤقف اپنایا تھا کہ 62 (ون) (ایف) کے تحت نااہلی صرف عدلیہ کا اختیار ہے اور سپریم کورٹ کے مطابق الیکشن کمیشن کوئی عدالت نہیں۔

عمران خان نے توشہ خانہ ریفرنس کے سلسلے میں 7 ستمبر کو الیکشن کمیشن میں اپنا تحریری جواب جمع کرایا تھا، جواب کے مطابق یکم اگست 2018 سے 31 دسمبر 2021 کے دوران وزیر اعظم اور ان کی اہلیہ کو 58 تحائف دیے گئے۔

بتایا گیا کہ یہ تحائف زیادہ تر پھولوں کے گلدان، میز پوش، آرائشی سامان، دیوار کی آرائش کا سامان، چھوٹے قالین، بٹوے، پرفیوم، تسبیح، خطاطی، فریم، پیپر ویٹ اور پین ہولڈرز پر مشتمل تھے البتہ ان میں گھڑی، قلم، کفلنگز، انگوٹھی، بریسلیٹ/لاکٹس بھی شامل تھے۔

جواب میں بتایا کہ ان سب تحائف میں صرف 14 چیزیں ایسی تھیں جن کی مالیت 30 ہزار روپے سے زائد تھی جسے انہوں نے باقاعدہ طریقہ کار کے تحت رقم کی ادا کر کے خریدا۔

اپنے جواب میں عمران خان نے اعتراف کیا تھا کہ انہوں نے بطور وزیر اعظم اپنے دور میں 4 تحائف فروخت کیے تھے۔

سابق وزیر اعظم کا کہنا تھا کہ انہوں نے 2 کروڑ 16 لاکھ روپے کی ادائیگی کے بعد سرکاری خزانے سے تحائف کی فروخت سے تقریباً 5 کروڑ 80 لاکھ روپے حاصل کیے، ان تحائف میں ایک گھڑی، کفلنگز، ایک مہنگا قلم اور ایک انگوٹھی شامل تھی جبکہ دیگر 3 تحائف میں 4 رولیکس گھڑیاں شامل تھیں۔

چنانچہ 21 اکتوبر 2022 کو الیکشن کمیشن آف پاکستان (ای سی پی) نے سابق وزیر اعظم اور پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے چیئرمین عمران خان کے خلاف دائر کردہ توشہ خانہ ریفرنس کا فیصلہ سناتے ہوئے انہیں نااہل قرار دے دیا تھا۔

الیکشن کمیشن نے عمران خان کو آئین پاکستان کے آرٹیکل 63 کی شق ’ایک‘ کی ذیلی شق ’پی‘ کے تحت نااہل کیا جبکہ آئین کے مذکورہ آرٹیکل کے تحت ان کی نااہلی کی مدت موجودہ اسمبلی کے اختتام تک برقرار رہے گی۔

فیصلے کے تحت عمران خان کو قومی اسمبلی سے ڈی سیٹ بھی کردیا گیا تھا۔

کارٹون

کارٹون : 22 دسمبر 2024
کارٹون : 21 دسمبر 2024