غزہ میں جاری جنگ تیسرے مہینے میں داخل، اسرائیل کی بمباری کا سلسلہ جاری
غزہ میں اسرائیل اور حماس کے درمیان جاری تاریخ کی سب سے بدترین جنگ تیسرے مہینے میں داخل ہوگئی ہے اور غزہ اور اس کے اطراف کے بڑے شہروں پر اسرائیل کی بمباری کا سلسلہ جاری ہے۔
اسرائیلی فوج نے غزہ، خان یونس سمیت بڑے شہروں کا محاصرہ کر رکھا ہے جہاں اکثر عمارتیں اور گھر ملبے کا ڈھیر بن چکے ہیں اور شہید ہونے والے فلسطینیوں کی تعداد 16 ہزار 200 ہو گئی ہے۔
اسرائیل کے وزیر اعظم بینجمن نیتن یاہو نے دعویٰ کیا ہے کہ اسرائیلی فوج خان یونس میں غزہ کے 61 سالہ سربراہ یحییٰ سنور کے گھر پہنچ گئی تھی لیکن وہ فرار ہو گئے تھے البتہ ہم کچھ وقت میں ان تک پہنچ جائیں گے۔
غزہ کے جنوب میں مصر کی سرحد کے ساتھ واقع رفح پر بھی شدید بمباری کی گئی حالانکہ یہ شہر غزہ پر مسلسل بمباری کے بعد اب فلسطینیوں کے بڑے کیمپ کی شکل اختیار کر گیا ہے۔
اسرائیل نے کہا ہے کہ اس کے فوجیوں نے غزہ میں خان یونس کے وسط میں مخصوص اہداف پر حملوں میں ’دہشت گردوں‘ کو مار ڈالا اور اُن کے بنیادی انفرااسٹرکچر کو تباہ کر کے ہتھیار برآمد کرلیے۔
خبر رساں ادارے ’رائٹرز‘ کے مطابق اسرائیلی جنگی طیاروں کی جانب سے گنجان آباد ساحلی پٹی میں تازہ بمباری اب تک کیے جانے والے سب سے شدید حملوں میں سے ایک ہے۔
فلسطین کی سرکاری خبر رساں ایجنسی ’وفا‘ نے بتایا کہ گزشتہ شب وسطی غزہ کے علاقے مغازی میں ایک گھر پر اسرائیلی فضائی حملے میں 17 افراد جاں بحق ہوگئے۔
’الجزیرہ‘ کی رپورٹ میں بتایا گیا کہ شمالی غزہ میں جبالیہ کیمپ پر اسرائیلی بمباری کے نتیجے میں الجزیرہ کے غزہ میں موجود نمائندے مومن الشرفی کے 22 رشتہ دار جاں بحق ہوگئے، ادارے نے اس آپریشن کی مذمت کی ہے۔
بڑھتی ہوئی کشیدگی کے دوران شمالی غزہ میں بے گھر ہونے والے لاکھوں افراد جنوب میں ایسی جگہوں میں پناہ کی تلاش میں ہیں جنہیں اسرائیل نے ’محفوظ‘ قرار دیا ہے۔
غزہ کی صورتحال تباہ کن ہوتی جا رہی ہے، اقوام متحدہ
مقبوضہ فلسطین میں اقوام متحدہ کے انسانی امور کے دفتر نے کہا ہے کہ غزہ کی صورتحال ابتر ہوتی جا رہی ہے کیونکہ جھڑپوں اور اموات کی بڑھتی تعداد کی وجہ سے امداد کی کوششیں ناممکن ہوتی جا رہی ہیں۔
ادارے کی یومیہ رپورٹ میں بتایا گیا کہ کمال عدوان ہسپتال گزشتہ روز غیر فعال کردیا گیا جس کے بعد وہاں سے زیادہ تر مریضوں اور عملے کو نکال لیا گیا، یہ اُن چند آخری طبی مراکز میں سے ایک تھا جو اب تک فعال ہیں۔
رپورٹ میں بتایا گیا کہ ہسپتال غیر فعال ہونے کی وجہ اس کے آس پاس کے علاقے میں شدید جھڑپیں اور بنیادی طبی سامان، پانی، خوراک اور ایندھن کی کمی ہے۔
رپورٹ میں مزید بتایا گیا کہ 20 مریضوں کو ان کی حالت کی وجہ سے ہسپتال سے نکالا نہیں جا سکا اور وہ تاحال وہیں موجود ہیں۔
رپورٹ کے مطابق جھڑپوں سے قبل یہاں 24 ہسپتال فعال تھے جن میں سے اب صرف 2 چھوٹے ہسپتالوں میں مریضوں کا داخلہ کیا جا رہا ہے۔