روپے کی گرواٹ سے مہنگائی میں مزید اضافے کے خدشات
روپے کی قدر میں مسلسل کمی سے نہ صرف مہنگائی میں اضافہ ہو رہا ہے بلکہ یہ مرکزی بینک کو بھی مجبور کر رہی ہے کہ وہ مقامی کرنسی کی بے قابو گراوٹ کے اثرات کو کم کرنے کے لیے شرح سود میں اضافہ کرے۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق یہ بات شرح تبادلہ اور درآمدات میں ڈیل کرنے والے بینکرز نے بتائی، اسٹیٹ بینک آف پاکستان نے رپورٹ کیا کہ انٹربینک میں ڈالر ایک روپے 40 پیسے اضافے کے بعد 304 روپے 45 پیسے پر پہنچ گیا۔
ایک سینئر بینکر نے بتایا کہ مارکیٹ کسی کے بھی قابو میں نہیں ہے، روپیہ تیزی سے گرتا رہے گا اور شاید یہ آئی ایم ایف کی دی گئی حد سے بھی نیچے چلا جائے، مزید کہا کہ کسی کو نہیں پتا کہ شرح تبادلہ کے حوالے سے آگے کیا صورتحال ہوگی۔
اسٹینڈ بائے ارینجمنٹ کے تحت آئی ایم ایف 3 ارب ڈالر تین اقساط میں ادا کرے گا اور وہ مالی سال 2024 میں ڈالر کے مقابلے میں پاکستانی کرنسی کی قدر میں 20 فیصد کمی دیکھنا چاہتا ہے۔
تاہم، رواں مالی سال کے ابتدائی 2 مہینے سے بھی کم وقت میں پاکستانی کرنسی کی قدر 10.5 فیصد یا 29 روپے فی ڈالر گھٹ چکی ہے، جب آئی ایم ایف نے ایس بی اے کی منظور دی تھی اس وقت انٹربینک مارکیٹ میں ڈالر 275 روپے 44 پیسے پر تھا جو گزشتہ روز 304 روپے 45 پیسے تک پہنچ چکا ہے۔
انٹربینک مارکیٹ میں ایک کرنسی ڈیلر عاطف احمد نے بتایا کہ مقامی کرنسی کی تیزی سے بے قدری نگران حکومت کے لیے تشویشناک صورتحال ہے، روپے کی بلا رکاوٹ تنزلی میں لازمی کچھ توقف ہونا چاہیے۔
نگران وزیر خزانہ شمشاد اختر نے مبینہ طور پر کہا تھا کہ بدقسمتی سے ہم نے معیشت کو کمزور کرنے کے سب کچھ کیا ہے، انہوں نے اسلام آباد میں مزید کہا تھا کہ پاکستان کی معاشی صورتحال ان کے اندازے سے زیادہ خراب ہے۔
عاطف احمد نے کہا کہ وزیرخزانہ کے ایسے بیانات سے بے چینی بڑھتی ہے، تاریک صورتحال نے پہلے ہی مارکیٹ کے اعتماد کو تباہ کر دیا ہے، ہم صرف مزید ابتری کا انتظار کر سکتے ہیں۔
مالیاتی حلقوں میں یہ قیاس آرائیاں کی جا رہی ہیں کہ بڑھتی ہوئی مہنگائی کا مقابلہ کرنے کے لیے شرح سود میں دوبارہ اضافہ کیا جائے گا، پاکستانی روپے کی قدر میں کمی سے درآمدی لاگت بڑھ رہی ہے، جس کے نتیجے میں اقتصادی منیجرز کی توقعات اور حسابات سے کہیں زیادہ مہنگائی ہو رہی ہے۔
تجزیہ کاروں کی رپورٹ کے مطابق اگست میں مہنگائی 26 سے 28 فیصد رہنے کی پیش گوئی کی گئی ہے جبکہ حکومتی توقعات 21 سے 22 فیصد کی ہیں، اس تیز رفتار مہنگائی کی توقعات کے سبب مرکزی بینک اس سے نمٹنے کے لیے شرح سود میں مزید اضافہ کر سکتا ہے، شرح سود پہلے ہی 22 فیصد کی تاریخی بلند ترین سطح پر ہے، جس کے سبب مقامی سرمایہ کاری کے امکانات میں تنزلی ہو رہی ہے، شرح سود میں مزید اضافہ تجارت، صنعت اور مجموعی معاشی نمو کے لیے تباہ کن ثابت ہوسکتا ہے، جس کی مالی سال 2024 میں 2.5 فیصد سے بڑھنے کا تخمینہ لگایا گیا ہے۔
تجزیہ کاروں نے کہا کہ مارکیٹ پر مبنی شرح تبادلہ سے پاکستان کو ممکنہ طور پر غیر ضروری درآمدی پابندیوں سے بچایا جا سکتا ہے، جس سے اقتصادی ترقی کو فروغ ملے گا، تاہم ملک اس وقت ڈالر کی بڑھتی ہوئی طلب کو پورا کرنے کے لیے جدوجہد کر رہا ہے، اسٹیٹ بینک کے پاس صرف 8 ارب ڈالر کے زرمبادلہ کے ذخائر ہیں جبکہ مزید آمد کے کوئی آثار نہیں، جو کرنسی مارکیٹ کو کمزور سگنل بھیجتا ہے۔
اوپن مارکیٹ میں ایک کرنسی ڈیلر نے تجویز پیش کی کہ اپنی رقم بچانے کا واحد طریقہ یہ ہے کہ پاکستانی کرنسی رکھنے کے بجائے کوئی بھی غیر ملکی کرنسی خرید لیں، انہوں نے کہا کہ اوپن مارکیٹ عام لوگوں کو اپنی بچت کے لیے راغب کر رہی ہے۔
ایکسچینج کمپنیز ایسوسی ایشن آف پاکستان کے مطابق ڈالر کا ریٹ 319 روپے 50 پیسے تھا،تاہم اس قیمت پر ڈالر خریدنا مشکل تھا کیونکہ ڈالر 325 سے 330 روپے پر دستیاب تھا۔