شہریار آفریدی، شاندانہ گلزار کی رہائی کا حکم، اعلیٰ افسران کے خلاف توہین عدالت کی کارروائی کا فیصلہ
اسلام آباد ہائی کورٹ نے سابق وفاقی وزیر شہریار آفریدی اور پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کی رہنما شاندانہ گلزار کی مینٹیننس پبلک آرڈر (ایم پی او) کے تحت گرفتاری کے خلاف کیس کی سماعت کے دوران گرفتاری کا آرڈر معطل کرتے ہوئے دونوں کو گھر جانے کی اجازت دے دی، جب کہ ایس ایس پی آپریشنز اور ڈپٹی کمشنر اسلام آباد پر فرد جرم عائد کرنے کا فیصلہ کرلیا۔
اسلام آباد ہائی کورٹ میں جسٹس بابر ستار نے شہریار آفریدی اور شاندانہ گلزار کی ایم پی او کے تحت گرفتاری کے خلاف کیس کی سماعت کی۔
ڈی سی اسلام آباد بطور ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ عدالت کے سامنے پیش ہوئے، آئی جی اسلام آباد، چیف کمشنر اسلام آباد، شہریار آفریدی، شاندانہ گلزار اور درخواست گزاروں کے وکیل شیر افضل مروت بھی عدالت کے سامنے پیش ہوئے۔
عدالت عالیہ نے کہا کہ اگر شہریار آفریدی جیل میں رہ کر عدالت پر حملے کا منصوبہ بنا رہے تھے تو جیل انتظامیہ کے خلاف کیا کارروائی کی گئی؟
ڈپٹی کمشنر نے کہا کہ انٹیلی جنس رپورٹس کے مطابق شہریار آفریدی نے اشتعال پھیلایا، ضلعی عدالتوں پر حملے کی منصوبہ بندی میں ملوث ہونے کی بھی اطلاعات ہیں، عدلیہ کے خلاف مہم میں بھی ان کا نام آیا۔
جسٹس بابر ستار نے استفسار کیا کہ جیل میں ہونے کے باوجود انہوں نے لوگوں کو کیسے اشتعال دلایا؟ ڈپٹی کمشنر اسلام آباد نے کہا کہ میری آنکھیں اور کان تو انٹیلی جنس رپورٹس ہی ہیں، ڈی سی نے 9 مئی کو مختلف شہروں میں ہونے والے واقعات کا حوالہ دیا جس پر جسٹس بابر ستار نے ڈی سی کو روک دیا۔
جسٹس بابر ستار نے ہدایت کی کہ آپ صرف اسلام آباد کی بات کریں اور اپنے آرڈر پڑھیں، ڈی سی نے کہا کہ آئی بی نے رپورٹ دی کہ شہریار آفریدی ضلعی عدالتوں پر حملہ کر سکتے ہیں، عدالت نے استفسار کیا کہ شہریار آفریدی جیل میں عدالت پر حملے کا منصوبہ کیسے بنا رہے تھے؟
جسٹس بابر ستار نے ڈی سی سے استفسار کیا کہ شہریار آفریدی کی میڈیا اور موبائل تک رسائی تھی؟ اس موقع پر متعلقہ ایس ایچ او کو روسٹرم پر طلب کر لیا گیا، عدالت نے استفسار کیا کہ آپ کے پاس کیا انفارمیشن تھی شہریار آفریدی کی پلاننگ سے متعلق، ایس ایچ او نے جواب دیا کہ سر میں اس وقت وہاں ایس ایچ او نہیں تھا، پہلے کوئی اور ایس ایچ او تھے۔
عدالت نے کہا کہ پھر تو آپ کی جان چھوٹ گئی، ڈی پی او کون تھا، متعلقہ ڈی پی او روسٹرم پر آگئے، عدالت نے استفسار کیا کہ آپ کے پاس کیا انفارمیشن تھی شہریار آفریدی کی پلاننگ سے متعلق، ڈی پی او نے جواب دیا کہ سر میں اس وقت چھٹی پر گیا ہوا تھا۔
جسٹس بابر ستار نے کہا کہ 8 مئی کی انٹیلی جنس رپورٹس کہ صورتحال کشیدہ ہے، 8 مئی کو کیا ہو رہا تھا اسلام آباد میں؟ کیا آپ نے اس سے متعلق پوچھا؟ ان رپورٹس کی روشنی میں آپ نے بھی اپنا مائنڈ اپلائی کرنا ہوتا ہے، پولیس حکام بتائیں کہ 8 مئی کو کیا صورتحال تھی اسلام آباد میں؟
آئی جی اسلام آباد اکبر ناصر خان نے کہا کہ واقعہ ہونے سے قبل خدشات کی بنیاد پر کارروائی کی جاتی ہے، ہم نے یہ کارروائیاں امن و امان کی صورتحال برقرار رکھنے کے لیے کیں، جسٹس بابر ستار نے کہا کہ اسپیشل برانچ کی رپورٹ تو محض ایک مذاق ہے، شہریار آفریدی جیل میں بیٹھ کر جن کو تشدد پر اکسا رہا تھا، ان میں سے کسی کو گرفتار کیا گیا؟
آئی جی اسلام آباد نے کہا کہ ہم تو ماسٹر مائنڈ کے پیچھے جائیں گے، جسٹس بابر ستار نے کہا کہ جو کچھ پڑھا گیا، وہ پولیس سسٹم کا مذاق اڑا رہا ہے، فیصلہ کر لیں کہ ملک کو آئین کے تحت چلانا ہے یا کسی اور طرح سے چلانا ہے؟ عدالت نے آئی جی کو ہدایت کی کہ تفصیلی رپورٹ جمع کروائیں۔
عدالت نے استفسار کیا کہ ڈی سی صاحب آپ نے اپنے شوکاز کا جواب جمع کروایا ہے، ڈپٹی کمشنر نے اسپیشل برانچ اور انٹیلی جنس بیورو کی رپورٹس پڑھ کر سنائیں، جسٹس بابر ستار نے تفصیلات طلب کرتے ہوئے کہا کہ پچھلے 3 ماہ میں آپ کا کوئی ایک ایم پی او کا آرڈر جو عدالت نے برقرار رکھا ہو؟ ذہن میں رکھیں کہ توہین عدالت پر 6 ماہ قید کی سزا ہو سکتی ہے، ڈپٹی کمشنر نے کہا کہ شوکاز نوٹس کا جمع کرا دیا ہے، جون کا ایم پی او مختلف نوعیت کا ہے اور اس وقت کا کیس مختلف ہے۔
عدالت نے کہا کہ آپ نے ایم پی او کے آرڈر میں جو لکھا ہے وہ دیکھیں، آپ نے 16 مئی کے ایم پی او میں یہی وجوہات لکھی تھیں جو 8 اگست کے آرڈر میں ہے، جسٹس بابر ستار نے ڈی سی کے ساتھ مکالمہ کیا کہ عدالت نے آپ کا وہ ایم پی او آرڈر غیر قانونی قرار دے دیا تھا۔
عدالت نے شہریار آفریدی کیس میں جاری شوکاز نوٹس پر ڈی سی کا جواب غیر تسلی بخش قرار دیتے ہوئے ڈی سی اسلام آباد کے خلاف توہین عدالت کی کارروائی کا فیصلہ کرلیا۔
اسلام آباد ہائی کورٹ نے کہا کہ آئندہ سماعت پر ڈی سی اسلام آباد پر فرد جرم عائد ہو گی۔
دوران سماعت ایس ایس پی آپریشنز کو روسٹرم پر طلب کرلیا گیا، ایس ایس پی کے وکیل طاہر کاظم نے کہا کہ پہلا ایم پی او آرڈر کالعدم قرار دینے کی وجوہات مختلف تھیں، عدالت نے کہا کہ نظربندی احکامات بعد میں جاری ہوئے اور گرفتار پہلے کیا گیا، تھریٹ الرٹس پر کارروائی خدشات کی بنیاد پر ہی کی جاتی ہے۔
جسٹس بابر ستار نے کہا کہ آپ لوگوں نے تماشا بنایا ہوا ہے، عدالت ایم پی او آرڈر کالعدم دیتی ہے اور پھر نیا آرڈر جاری ہوجاتا ہے، عدالت نے ایس ایس پی آپریشنز کا جواب بھی غیر تسلی بخش قرار دیا اور ان کے خلاف بھی فرد جرم عائد کرنے کا فیصلہ کرلیا۔
جسٹس بابر ستار نے کہا کہ آئندہ سماعت پر ایس ایس پی آپریشنز پر بھی فرد جرم عائد ہو گی، اسلام آباد ہائی کورٹ نے آئی جی اسلام آباد کو نوٹس جاری کردیا، عدالت نے آئی جی اسلام آباد کو متعلقہ افسران کے نام فراہم کرنے کی ہدایت کی، آئی جی اسلام آباد کو متعلقہ ایس ایچ او اور ڈی پی اوز کے نام دینے کی ہدایت کی اور متعلقہ ایس ایچ او اور ڈی پی اوز دونوں کو شوکاز نوٹس جاری کرنے کا حکم دیا۔
جسٹس بابر ستار نے کہا کہ آپ سمجھتے ہیں سب اندھے ہیں؟ انہوں نے شہریار آفریدی سے اڈیالہ جیل میں ملاقاتوں کا ریکارڈ طلب کرلیا اور کہا کہ ڈپٹی کمشنر کو ایم پی او آرڈر جاری کرنے کا اختیار دینے کا نوٹی فکیشن دکھائیں۔
جسٹس بابر ستار نے کہا کہ نوٹی فکیشن کہاں ہے جس میں ڈپٹی کمشنر کو یہ اتھارٹی دی گئی؟ عدالت نے کہا کہ کیا حکومت کی جانب سے یہ اختیار تفویض کرنے کا کوئی نوٹی فکیشن موجود ہے؟ اگر وہ نوٹی فکیشن موجود نہیں تو پھر اتنی بحث کی بھی ضرورت نہیں ہے۔
شہریار آفریدی کو میڈیا سے دور رہنے کی ہدایت
اسلام آباد ہائی کورٹ نے شہریار آفریدی کو میڈیا اور سوشل میڈیا پر بیانات نہ دینے کی ہدایت کی، جسٹس بابر ستار نے کہا کہ میں آپ سے توقع کرتا ہوں کہ یہ کیس چلنے تک آپ کوئی بیان نہیں دیں گے، آپ کی طرف سے میڈیا یا سوشل میڈیا پر کوئی بیان نہیں آنا چاہیے۔
دوران سماعت اسلام آباد ہائی کورٹ نے شہریار آفریدی اور شاندانہ گلزار کی ایم پی او کے تحت گرفتاری کا آرڈر معطل کرتے ہوئے دونوں کی رہائی کا حکم دے دیا اور کیس زیر التوا ہونے تک میڈیا پر بیان نہ دینے اور اسلام آباد کی حدود سے باہر نہ جانے کی ہدایت کی۔
عدالت نے کہا کہ اگر ان دونوں کو کچھ ہوا تو آئی جی اور چیف کمشنر ذمہ دار ہوں گے، کیس کی سماعت 2 ہفتوں تک ملتوی کردی گئی۔
گرفتاریوں کا پس منظر
واضح رہے کہ گزشتہ روز اسلام آباد ہائی کورٹ نے شہریار آفریدی اور شاندانہ گلزار خان کی جانب سے ایم پی او کے تحت نظر بندیوں کے خلاف دائر درخواستوں پر سٹی پولیس چیف، چیف کمشنر، ڈپٹی کمشنر (ڈی سی) اور دیگر حکام کو شوکاز نوٹس جاری کیے تھے۔
پی ٹی آئی رہنما شہریار آفریدی کو سب سے پہلے 16 مئی کو ایم پی او آرڈیننس 1960 کے سیکشن 3 کے تحت اسلام آباد میں ان کی رہائش گاہ سے گرفتار کیا گیا تھا۔ جیل سے رہائی کے فوراً بعد انہیں اسی دفعہ کے تحت 30 مئی کو دوبارہ گرفتار کیا گیا تھا۔
بعدازاں 3 اگست کو شہریار آفریدی کو لاہور ہائی کورٹ کے راولپنڈی بینچ نے ضمانت دی تھی لیکن بعد میں اڈیالہ جیل سے رہائی کے فوراً بعد راولپنڈی پولیس نے انہیں گرفتار کرلیا تھا، ان کے وکیل کی جانب سے اسلام آباد ہائی کورٹ میں ایک درخواست دائر کی گئی جس میں شہریار آفریدی کی رہائی اور ایم پی او آرڈر کو کالعدم قرار دینے کا مطالبہ کیا گیا۔
دریں اثنا پی ٹی آئی نے دعویٰ کیا تھا کہ شاندانہ گلزار خان کو 9 اگست کو اسلام آباد پولیس نے مبینہ طور پر ’اغوا‘ کیا تھا اور بعد میں ان کی والدہ کی طرف سے اسلام آباد ہائی کورٹ میں آئین کے آرٹیکل 4، 9، 10اے اور 14 کی خلاف ورزی کی بنیاد پر غیر قانونی گرفتاری کے خلاف ایک درخواست دائر کی گئی تھی جس میں پولیس سے ان کی بیٹی کو عدالت میں پیش کرنے کا مطالبہ کیا گیا تھا۔