ڈی ایچ اے نے چھتوں پر سولر پینل لگانے والوں پر جرمانہ لگادیا
ایک طرف وفاقی حکومت شہریوں کو مہنگے ایندھن پر انحصار کم کر کے توانائی کے متبادل ذرائع سے بجلی پیدا کرنے کی ترغیب دے رہی ہے تو دوسری جانب بجلی پیدا کرنے کے لیے اپنے گھروں کی چھتوں پر سولر پینل لگانے والے متعدد رہائشیوں کو ڈیفنس ہاؤسنگ اتھارٹی نے بلڈنگ کنٹرول کی خلاف ورزی پر نوٹس بھیج کر جرمانے عائد کر دیے ہیں۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق رواں ماہ کے اوائل میں وزیراعظم شہباز شریف نے بجلی کی پیداوار کے لیے مہنگے درآمدی ڈیزل، فرنس آئل اور ایل این جی پر انحصار کم کرنے کے لیے 10 ہزار میگاواٹ کے شمسی توانائی کے منصوبے کی منظوری دی تھی، وزیر اعظم نے کاروباری افراد اور گھریلو صارفین کو شمسی توانائی کا انتخاب کرنے کی ترغیب دینے کے لیے سولر پینل پر 17 فیصد جنرل سیلز ٹیکس سے استثنیٰ بھی دیا تھا۔
یہ بھی پڑھیں: ڈی ایچ اے کی ریئل اسٹیٹ میں دلچسپی نےبنیادی سہولتوں کے لیے مختص زمین کوبھی نہیں چھوڑا،ہاؤسنگ اتھارٹی کی الزامات کی تردید
تاہم ڈی ایچ اے میں گھروں کی چھتوں پر سولر پینلز کے لیے اسٹیل کا استعمال کر کے تعمیراتی قوانین کی مبینہ خلاف ورزی پر اتھارٹی نے رہائشیوں کو نوٹس بھیجا اور جرمانے عائد کر دیے اور اتھارٹی کے اس فیصلے کے بعد ڈی ایچ اے کے رہائشیوں میں بے چینی بڑھ گئی ہے۔
مکین اس بات پر حیران ہیں کہ ڈی ایچ اے نے خود انہیں سولر پینل لگانے کی اجازت دی تھی تو اب انہیں جرمانہ دینے کی دھمکیاں کیوں دی جارہی ہے۔
ڈی ایچ اے کے رہائشی راشد ایچ انصاری نے کہا کہ یہ کافی عجیب اور غیر متوقع بات ہے کیونکہ ڈی ایچ اے میں بہت سے لوگوں نے اپنے گھروں چھتوں پر سولر پینل لگائے ہوئے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ سولر پینل لگانے سے پہلے ان سے پوچھ گچھ نہیں کی گئی بلکہ حوصلہ افزائی کی گئی تھی، اب اچانک وہ چاہتے ہیں کہ تجدید کاری کے چارجز کو لاگو کردیں گے جس کی رقم لاکھوں روپے ہے۔
مزید پڑھیں : ڈیفنس کے رہائشیوں کا ‘انتظامی غفلت’ پر ڈی ایچ اے، سی بی سی کے خلاف عدالت سے رجوع
انہوں نے کہا کہ ہمیں جال میں پھنسایا جارہا ہے، جس طرح شکار جال کے اندر تو چلا جاتا ہے لیکن واپس باہر نہیں نکل سکتا، بالکل اسی طرح یہ چاہتے ہیں کہ ہمارے بھی تمام راستے بند ہو جائیں، انہوں نے کہا کہ ڈی ایچ اے میں ہر دوسرے گھر میں گزشتہ 5 یا 6 سالوں سے سولر پینلز لگے ہیں، اب اچانک یہ ڈی ایچ اے کے لیے ایک بڑا مسئلہ بن گیا ہے۔
رہائشی نے بتایا کہ اتھارٹی چاہتی ہے کہ ہم ان سے سولر پینل لگانے کی اجازت لیں، اجازت حاصل کرنے کے لیے کچھ شرائط ہوتی ہیں، مثال کے طور پر ہماری ممبرشپ کا جائزہ لینا یا تجدید کرنا، ری فربشمنٹ چارجز کی ادائیگی، آرکیٹیکٹ اور انجینئرز سے منظوری لینا جن کا ان کے پینل میں ہونا بھی ضروری ہے، اب ہمیں ان انجینئرز کو ایک سے 2لاکھ روپے فیس بھی ادا کرنی ہو گی۔
یونس صدیقی نامی ایک اور رہائشی نے اسے ڈی ایچ اے کی چوہدراہٹ قرار دیتے ہوئے کہا کہ وہ ان تمام سروے کے مالک ہیں، وہ جیسا چاہیں کر سکتے ہیں، یہاں ان کی اجارہ داری ہے، ہمارے گھروں کی چھتوں پر سولر پینل لگانے سے گھروں کی تعمیراتی ساخت تبدیل ہو رہی ہے، اس لیے عمارت کی تعمیر نو کے لیے متعلقہ اتھارٹی سے منظوری درکار ہے۔
یہ بھی پڑھیں: بارشوں اور سیلاب کے باوجود ڈی ایچ اے میں پانی کی شدید قلت
رہائشی نے مزید بتایا کہ میرا کزن بھی ڈی ایچ اے کا رہائشی ہے، انہوں نے دھوپ سے بچنے کے لیے سبز جالی لگائی جس کا فریم اسٹیل کا تھا، صرف اس بات پر اتھارٹی نے میرے کزن پر جرمانہ عائد کر دیا۔
انہوں نے مزید کہا کہ حال ہی میں سیلاب کے بعد ڈی ایچ اے نے انہیں کوئی ری فربشمنٹ چارجز ادا کیے بغیر ہمیں اپنے گھروں کی مرمت اور دوبارہ تعمیر کی اجازت دی تھی ۔
ان کا کہنا تھا کہ ہم سے یہ رقم اینٹھنے کا شاید یہ ڈی ایچ اے انوکھا طریقہ ہے۔
انہوں نے کہا کہ ’یہ بات سمجھ آتی ہے کہ ڈی ایچ اے کے قانون سخت ہیں لیکن ہم ان سے پوچھنا چاہتے ہیں کہ وہ سب کے ساتھ یکساں سلوک کیوں نہیں کر رہے؟ مجھے لگتا ہے کہ یہ لوگ بعض لوگوں کو سزا دیتے ہیں اور کچھ لوگوں کو نہیں دیتے، یہاں کچھ لوگ ایسے بھی ہیں جنہوں نے اپنے گھروں کی سیکیورٹی کے لیے گھروں کے باہر خیمے اور ڈبے لگا رکھے ہیں، بعض اوقات یہ خیمے اور سیمنٹ کی تعمیرات سڑک کے ایک حصے کو بند کردیتی ہیں، یہاں قانون صرف مخصوص لوگوں کے لیے ہے جو بلکل غلط بات ہے کیونکہ سب پر یکساں قوانین لاگو ہونا چاہیے۔
مزید پڑھیں: کراچی: ڈی ایچ اے میں کثیر المنزلہ عمارت سے گر کر نوجوان جاں بحق
ڈی ایچ اے کے ترجمان نے ڈان کو بتایا کہ اتھارٹی نے ویب سائٹ پر اپ لوڈ کیے گئے اپنے 2020 کے مخصوص قوانین میں بتایا ہے کہ وہ گرین انرجی کی حمایت کرتے ہیں، ہم صرف اتنا چاہتے ہیں کہ سولر پینلز کی حوالے سے نئی تعمیر سے پہلے گھر کے اسٹرکچرل انجینئر سے منظوری لی جائے۔
ترجمان نے کہا کہ اگر کسی پرانے گھر میں سولر پینل لگائے جا رہے ہیں، تو اسے یہ بھی دیکھنے کی ضرورت ہے کہ آیا یہ گھر اضافی بوجھ بھی اٹھا سکتا ہے یا نہیں، ہم ہرگز نہیں چاہتے کہ آپ کی گھروں کی چھت گر جائے۔
ترجمان نے وضاحت کی اگر ڈی ایچ کے سروے کرنے والے آپ کے گھر کا جائزہ لینے آتے ہیں تو آپ کو کسی بھی قسم کی فیس ادا کرنے کی ضرورت نہیں ہو گی۔
یہ بھی پڑھیں: لندن سے چوری، سندھ میں رجسٹرڈ، لگژری کار ڈی ایچ اے کراچی کے گھر سے برآمد
انہوں نے کہا کہ سروے کے بعد آپ نے صرف ایک درخواست جمع کروانی ہے، تاکہ آپ کے نئے گھر کے منصوبے اور اس کی تعمیر کی لیے ہم پینلز کی تنصیب کی منظوری دے سکیں۔
ترجمان کا کہنا تھا کہ آپ کو ڈی ایچ اے کے نقطہ نظر کو بھی سمجھنا چاہیے، ہم سب کو اپنی مرضی نہیں کرنے دے سکتے کیونکہ پینلز کے لیے اسٹیل کے ڈھانچے بہت اونچے ہوں اور کچھ چار دیواری جتنے نیچے ہوں گے، اس حوالے سے کچھ قانون ہونا چاہیے۔