کابل میں طالبان تو آگئے لیکن کیا من و سلویٰ بھی اتار سکیں گے؟
طالبان کا ایک وفد اس سال کے شروع میں ترکمانستان پہنچتا ہے اور وہاں یقین دہانی کرواتا ہے کہ وہ 7 ارب ڈالر مالیت کی تاپی پائپ لائن کو تحفظ فراہم کریں گے۔ یہ پائپ لائن 33 ارب کیوبک میٹر گیس ترکمان گیس فیلڈ سے پاکستان اور بھارت پہنچائے گی اور افغانستان اس پائپ لائن سے کچھ سو ملین ڈالر ٹرانزٹ ریوینیو حاصل کرے گا۔
جس دن طالبان ترکمانستان میں یہ یقین دہانی کروارہے تھے اسی دن تاپی پراجیکٹ منیجر کے دفتر کے سامنے ایک کار بم دھماکا ہوتا ہے۔ منیجر اس میں بال بال بچ جاتا ہے۔ اب اس سے جو حساب لگانا ہے لگالیں۔ طالبان تحفظ کی یقین دہانی کروانے یوں پہنچے جیسے اس پراجیکٹ کا خیال بھی انہی کا تھا اور اس پر کام بھی انہوں نے ہی شروع کیا تھا۔
اگر آپ سوچ رہے ہیں کہ یہ آنیاں جانیاں، دھماکا اور گارنٹیاں میں دُوربین لگا کر دیکھ رہا تھا تو ایسا سوچیں بھی مت۔ یہ سب اجمل احمدی نے دی پرنٹ میں لکھا ہے۔ وہ افغانستان سینٹرل بینک کے گورنر اور وزیر اقتصادیات رہے ہیں۔ اس کے علاوہ انہوں نے 5 سال تاپی پراجیکٹ پر کام بھی کیا ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ گیس پائپ لائن پراجیکٹ کے لیے فنڈنگ حاصل کی جاچکی ہے، اور تمام ممالک ایک معاہدے پر دستخط کرچکے ہیں۔ اس کے علاوہ انجینیئرنگ ڈیزائن بھی مکمل ہوچکا ہے اور اب اس کے لیے زمین حاصل کی جا رہی ہے۔ یورپی کمپنیاں شارٹ لسٹ کی جاچکی ہیں جنہوں نے اسٹیل پائپ اور والو فراہم کرنے ہیں۔ لیکن کیا ایک ایسی حکومت اس پراجیکٹ پر عمل کر پائے گی جس کو پابندیوں کا سامنا ہوگا؟
مزید پڑھیے: جب اندھیرے میں طالبان پر تیر چلتے ہیں
چین نے 2008ء میں عینک کاپر مائن کی لیز حاصل کی، حاجی گک آئرن مائن کے لیے بھارتی فرم نے معاہدہ کر رکھا ہے۔ اس کے علاوہ آمو دریا آئل بیسن کے لیے چائنہ آئل پیٹرولیم نے حقوق لیے ہوئے ہیں لیکن اگر نئی حکومت کو پابندیوں کا سامنا ہوا تو کوئی سرمایہ کاری نہیں ہوسکے گی۔
افغانستان اپنی کرنسی بھی خود نہیں چھاپتا۔ 2 ارب افغانی کے چھوٹے نوٹ پولینڈ کی ایک فرم نے اگست میں فراہم کرنے تھے اور 100 ارب افغانی اگلے سال ایک فرنچ فرم نے فراہم کرنے ہیں۔ اجمل احمدی کا کہنا ہے کہ اب ان کی وصولی ممکن نہیں ہوسکے گی۔
جو کچھ یہ سابق افغان وزیر کہہ رہے ہیں یہ ایسا ناممکن بھی نہیں ہے۔ نئی افغان حکومت کی نامزدگیوں پر ایک نظر ڈالیں تو اس کے کئی اہم اہلکار یو این کی ٹیررسٹ لسٹ میں شامل ہیں۔ ملا حسن اخوند جو نئی حکومت کے چیف ایگزیکٹیو ہیں اس لسٹ میں شامل ہیں۔ سراج حقانی جو وزیرِ داخلہ بنے ہیں ان کے سر پر اب تک انعام ہے۔ گوانتانوموبے کے قیدی بھی اس حکومت کے ممبر ہیں۔ نائب وزیرِ دفاع ملا فاضل مظلوم اور انٹیلی جنس چیف ملا عبدالحق واسق بھی قید رہے ہیں۔ ملا برادر بھی یو این لسٹ میں شامل ہیں۔
مزید پڑھیے: کیا افغانستان کڑوے بیج کا درخت ہے؟
جس حکومت میں ایسے نام ہوں گے اس پر پابندیاں لگنا ایک قانونی تقاضہ بھی ہے۔ ان ناموں کو نکلوانے کے لیے بھی ایک سفارتی عمل کی ضرورت رہے گی۔ یہ تو شاید اگلے کسی مرحلے پر ہو بھی جائے گا۔
طالبان کو اقتصادی صورتحال اور چیلنجز کے حوالے سے بھی معاملات کا اندازہ ہے۔ غیر ملکی ویب سائٹ فارن پالیسی نے صورتحال کا احوال بیان کرتے ہوئے بتایا ہے کہ کیسے طالبان نے کابل پہنچتے ہی سرائے شہزادہ کی کرنسی مارکیٹ کھولنے اور اسے سیکیورٹی فراہم کرنے پر توجہ دی۔ کرنسی کی یہ مارکیٹ 4 افغان یہودیوں نے 1957ء میں قائم کی تھی۔ فارن پالیسی نے کابل میں یہ یہودی سازش بتا تو دی ہے اب ہم اسے جیسے پیش کریں گے وہ بھی دیکھ دیکھ کر حیران ہوں گے۔
افغانستان کے 9 ارب 50 کروڑ ڈالر فیڈرل ریزرو بینک آف نیویارک میں پڑے ہیں جو امریکیوں نے منجمد کردیے ہیں۔ آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک نے بھی کئی سو ملین ڈالر کی ادائیگیاں روک لی ہیں۔ تو افغانستان پر پابندیوں کا یہ خدشہ کوئی ایسا غیر حقیقی بھی نہیں ہے۔ یہاں یہ بتانا بھی ضروری ہے کہ طالبان کی نئی حکومت میں اقتصادیات کے وزیر قاری دین محمد حنیف ہیں جو ایک تاجک ہیں۔ مالیات کے بھی ایک وزیر ہیں جو ہدایت اللہ بدری ہیں اس کے علاوہ مرکزی بینک کا سربراہ حاجی ادریس کو بنایا گیا ہے۔
طالبان کے مالی معاملات جن لوگوں کے ذمے تھے وہ پیسوں کو سارے عالمی مالیاتی نظام سے بچا کر اِدھر اُدھر پہنچانے، لگانے اور بچانے کے ذمہ دار تھے۔ ان سے ڈیل کرنے والے عالمی بینکار اور ان کے اہلکار اب کیسا محسوس کریں گے؟ طالبان کے مالی معاملات تھے کیا؟ چھوڑیں ہمیں کیا، اس پر خاموشی اچھی۔
طالبان کو صورتحال کا اندازہ ہے۔ انہیں اچھی طرح معلوم ہے کہ کمائی تو جب ہوگی تب ہوگی، لیکن امداد فوری چاہیے کیونکہ لوگوں کو مدد کی ضرورت ہے۔
ملا برادر نے اقوامِ متحدہ کے ریلیف کوآرڈینیٹر مارٹن گریفٹس سے ملاقات کی۔ اس ملاقات کی تصویر دیکھیں تو اس میں خواتین ایڈ ورکر بھی موجود ہیں۔ اس کے بعد اقوامِ متحدہ کی سائٹ پر طالبان کی یقین دہانی کا بیان ہے کہ وہ خواتین اور مرد امدادی کارکنان کو تحفظ فراہم کریں گے۔ آپ کو کچھ سمجھ آئی؟ امداد کے لیے سختی چھوڑنی پڑتی ہے۔ جب دنیا سے مل کر چلنا ہوگا تو اس کی سننی اور ماننی بھی ہوگی۔ نہیں مانیں گے تو پھر اپنے لوگوں کے لیے سختی بڑھائیں گے۔
روسی نیوز ویب سائٹ کا کہنا ہے کہ اس وقت دنیا دو حصوں میں تقسیم ہے۔ ان میں سے ایک حصہ وہ ہوگا جو طالبان کے افغانستان سے تعلق رکھنا چاہے گا لیکن یہ تعلق وہ ان کو تسلیم کیے بغیر رکھیں گے اور ان کے سفارتخانے کابل میں کھلے رہیں گے۔ روس بھی ایسا ہی کرے گا۔ جبکہ دوسرے بھی تعلق تو رکھیں گے لیکن ان کے سفارتخانے کھلنے میں بہت دیر لگے گی۔
مزید پڑھیے: افغانستان کا سیاسی مستقبل کیسا ہوگا؟
امریکی صدر جو بائیڈن اس صورتحال کے مزے لے رہے ہیں۔ ان سے سوال کیا گیا کہ کیا انہیں فکر ہے کہ چین اب طالبان کو فنڈ فراہم کرے گا جبکہ امریکی قانون کے تحت طالبان پر پابندیاں ہیں۔ بائیڈن کا کہنا تھا کہ ’چین کو طالبان کے حوالے سے ایک حقیقی مسئلے کا سامنا ہے اور وہی اس کا کوئی حل نکالیں گے۔ مجھے یقین ہے کہ ایسا ہی پاکستان، روس اور ایران بھی کریں گے‘۔
امریکی صدر مزے لے رہے ہیں پابندیوں کا ذکر کیے بغیر کہہ رہے ہیں کہ اب کرو جو کرنا ہے۔ اس کرو جو کرنا ہے سے آپ کی توجہ جنرل فیض حمید کے دورے کی طرف ڈلواؤں۔ ایک کامیاب دورے سے واپسی کے ساتھ ہی جو خبر آئی ہے وہ پاکستان کو ابھرتی معیشت کی لسٹ سے کم کرکے فرنٹیر لسٹ میں ڈالنے کی ہے۔ لیکن ہمارا گھبرانا بنتا نہیں ہے۔ طالبان نے کابل لے لیا ہے تو معیشت کا بھی کچھ کر ہی لیں گے، اور ہمارا بھی ساتھ ہوجائے گا۔
تبصرے (9) بند ہیں