پاکستان کرکٹ کی بقا کیلئے ناقابل اعتبار بھارت کی ضرورت نہیں،چیئرمین پی سی بی
چیئرمین پاکستان کرکٹ بورڈ (پی سی بی) احسان مانی نے بھارت کو ناقابل اعتبار قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ پاکستان کو دنیائے کرکٹ میں اپنی بقا اور وجود برقرار رکھنے کے لیے بھارت سے کھیلنے کی کوئی ضرورت نہیں۔
راولپنڈی ایکسپریس کے نام سے مشہور قومی ٹیم کے سابق مایہ ناز فاسٹ باؤلر شعیب اختر نے کورونا وائرس کی بحرانی صورتحال میں معاشی استحکام اور دونوں ملکوں کے وائرس کے متاثرین کی مدد کے لیے پاکستان اور بھارت کے درمیان ون ڈے سیریز کے انعقاد کی پیشکش کی تھی۔
مزید پڑھیں: کھلاڑیوں کے مفادات کا ہر ممکن تحفظ یقینی بنائیں گے، احسان مانی
قومی ٹیم کے سابق کپتان شاہد آفریدی نے بھی شعیب اختر کے اس مؤقف کی حمایت کی تھی۔
تاہم چیئرمین پی سی بی احسان مانی نے بھارتی کرکٹ بورڈ کو ناقابل اعتبار قرار دیتے ہوئے کہا کہ پاکستان کرکٹ اور سیاست کو نہیں ملاتا، بھارت سے نہ کھیلنے سے ہمیں مالی نقصان ہوگا لیکن ہم اس کے بارے میں نہیں سوچ رہے، بھارت سے سیریز دیوانے کا خواب ہے لہٰذا اپنی توانائیاں ضائع کرنے کے بجائے ہمیں ان کے بغیر ہی جینا ہو گا اور ہمیں اپنی بقا کے لیے ان کی ضرورت نہیں۔
پاکستان کرکٹ بورڈ اب نیا نشریاتی معاہدہ کرنے والا ہے لیکن بھارت سے سیریز نہ ہونے کے نتیجے میں پاکستان کو گزشتہ کے مقابلے میں نشریاتی حقوق میں نقصان ہو سکتا ہے۔
اس سے قبل 14 کروڑ 50 لاکھ ڈالر کے عوض نشریاتی حقوق فروخت کیے تھے جس میں بھارت سے دو سیریز بھی شامل تھیں جو نہیں ہو سکیں لیکن اس کے باوجود احسان مانی 2020-2023 کے نشریاتی معاہدے میں بہترین مالی فوائد کے لیے پرامید ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: کورونا سے پہلے کرکٹر کی موت، سابق کرکٹر ظفر سرفراز جاں بحق
ان کا کہنا تھا کہ بھارت ناقابل اعتبار ہے اور ہم مستقبل قریب میں ان سے کرکٹ تعلقات کی بحالی پر انحصار نہیں کرسکتے، ایسا ہو تو دونوں ملکوں کے لیے بہت اچھا ہے۔
چیئرمین پی سی بی نے کہا کہ ہم بھارت سے صرف انٹرنیشنل کرکٹ کونسل کے مقابلوں میں کھیلتے ہیں اور مجھے اس بات سے کوئی فرق نہیں پڑتا، ہم کرکٹ کھیلنے میں دلچسپی رکھتے ہیں اور سیاست کو کرکٹ سے دور رکھتے ہیں۔
جولائی میں شیڈول قومی ٹیم کے دورہ انگلینڈ کے حوالے سے انہوں نے کہا کہ پاکستان اور انگلینڈ کے درمیان سیریز اس سال جون میں شیڈول ہے لیکن کورونا وائرس کی وجہ سے مشکل حالات کے سبب ہم حالات و واقعات کی مناسبت سے فیصلہ کریں گے اور اس سلسلے میں انگلش کرکٹ بورڈ کے ساتھ مل کر کام کر رہے ہیں۔
انہوں نے دورے کے انعقاد کی اُمید ظاہر کرتے ہوئے ساتھ ساتھ یہ بھی عندیہ دیا کہ ہم کسی بھی قسم کے تعطل یا منسوخی کے لیے بھی تیار ہیں، ہمیں اس حوالے سے لچکدار مؤقف اپنانا ہو گا کیونکہ دونوں طرف سے جذبہ خیرسگالی کا مظاہرہ کیا جائے گا۔
مزید پڑھیں: بھارتی میڈیا کا پاکستان پر کورونا پھیلانے کا الزام بیوقوفانہ ہے، شاہد آفریدی
احسان مانی نے سری لنکا کی طرح پاکستان میں بھی میچ اور اسپاٹ فکسنگ کو مجرمانہ فعل قرار دینے کا عندیہ دیتے ہوئے کہا کہ فکسنگ کی لعنت کے خلاف کرکٹ کھیلنے والی قوموں کو لازمی طور پر قانون سازی کرنی چاہیے تاکہ اس طرح کے کسی بھی واقعے کی برابر تحقیقات ہو سکے۔
ان کا کہنا تھا کہ ایک چیز واضح ہونی چاہیے کہ اس طرح کے جرائم کو کسی بھی صورت برداشت نہیں کرنا چاہیے، ہم آئی سی سی قوانین پر عمل ضرور کر رہے ہیں لیکن فکسنگ اور کھیل میں کرپشن کو جرم قرار دینے کے حوالے سے دیگر ملکوں کی طرح ہم نے اقدامات نہیں کیے۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان میں فکسنگ کے خلاف قانون سازی کرنے کی اشد ضرورت ہے تاکہ وہ بھی سری لنکا، آسٹریلیا، انگلینڈ اور نیوزی لینڈ جیسی قوموں کی صفوں میں شامل ہو جائے جو اپنے رشوت ستانی کے قانون کے تحت اس جرم سے نمٹ رہے ہیں۔
پی سی بی کے سربراہ نے کہا کہ وہ اس کے حامی ہیں اور انہوں نے اس حوالے سے حکومت سے پہلے ہی بات کر چکے ہیں اور دوبارہ فکسنگ اور کرپشن کے خلاف قوانین بنانے پر اصرار کریں گے۔
یہ بھی پڑھیں: ایشیا کپ کا انعقاد غیریقینی صورتحال سے دوچار ہے، چیئرمین پی سی بی
ان کا کہنا تھا کہ ہمارے پاس گواہوں کو طلب یا ان کی بینک اکاؤنٹ کی تفصیلات جاننے کا کوئی قانونی حق نہیں لیکن اگر ہم قانون سازی کرتے ہیں تو پھر ہمارے لیے تحقیقات کرنا آسان ہو جائے گا۔
انہوں نے خصوصی طور پر اسپاٹ فکسنگ میں سزا یافتہ شرجیل خان کے حوالے سے جاری بحث پر کہا کہ وہ کسی خاص فرد کے حوالے سے کوئی بیان دینا نہیں چاہتے لیکن سب پر یہ واضح کردینا چاہتے ہیں کہ جو شخص اپنی سزا بھگت چکا ہے اسے خود کو درست ثابت کرنے کا ایک اور موقع ضرور ملنا چاہیے۔
احسان مانی نے کہا کہ کھلاڑیوں کے بحالی پروگرام سے فکسنگ کے خلاف سخت پیغام پہنچانے میں مدد ملے گی کیونکہ وہ تمام کھلاڑیوں خصوصاً نوجوانوں تک یہ پیغام پہنچا سکتے ہیں کہ ان منفی سرگرمیوں میں ملوث ہونے کے کتنے منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں۔