'پہلی جنگ عظیم میں امریکیوں کی ہلاکت کو نسل کشی کہنا شامی حکومت کا دوغلا پن ہے'
ترکی نے شام کی پارلیمنٹ کی جانب سے پہلی جنگ عظیم میں امریکیوں کی ہلاکت کو 'نسل کشی' تسلیم کرنے کو 'دوغلا پن' قرار دے دیا۔
غیر ملکی خبر رساں ادارے 'اے ایف پی' کے مطابق ترک وزیر خارجہ نے ایک بیان میں کہا کہ یہ دوغلے پن کی ایک تاریخی مثال ہے کہ جو خود اپنے ہی لوگوں کی نسل کشی میں ملوث ہیں وہی پہلی جنگ عظیم میں امریکیوں کی ہلاکت کو نسل کشی قرار دے رہے ہیں۔
مزید پڑھیں: شام: حلب میں 'انسانی بحران' کا خدشہ ہے، سیکریٹری جنرل اقوام متحدہ
انہوں نے کہا کہ شامی حکومت نے لاکھوں لوگوں کو نقل مکانی پر مجبور کردیا اور اپنے شہریوں کے خلاف کیمیکل ہتھیار استعمال کیے۔
واضح رہے کہ امریکا دعویٰ کرتا ہے کہ پہلی جنگ عظیم میں اس کے 15 لاکھ لوگ ہلاک ہوئے۔
اس ضمن میں ترکی کی جانب سے ہمیشہ امریکی موقف کو مسترد کیا گیا۔
انقرہ، امریکیوں کی ہلاکت کو نسل کشی قرار نہیں دیتا۔
ترکی کے مطابق پہلی جنگ عظیم میں ترک بھی ہلاک ہوئے تھے جبکہ ہلاک امریکیوں کی تعداد انتہائی کم تھی۔
انقرہ نے نسل کشی کے دعوؤں کو مسترد کرتے ہوئے دمشق پر تاریخ کی سنگین انسانی حقوق کی پامالی کا الزام لگایا۔
یہ بھی پڑھیں: ‘امریکا نے شام میں رہائشی علاقوں پر کیمیائی ہتھیار داغے‘
ترک وزیر خارجہ نے کہا کہ 'ایک ظالم حکومت کے ذریعے لگائے گئے بے بنیاد الزامات جس نے اپنی قانونی حیثیت کھو دی ہے، یہ ایک مسخ شدہ ذہنیت کا واضح اشارہ ہے۔
واضح رہے کہ گزشتہ روز صدر رجب طیب اردوان نے دھمکی دی تھی کہ اگر ان کے فوجیوں کو معمولی خراشیں بھی آئیں تو شامی فورسز کو 'ہر جگہ' اور 'ہر طریقے' سے نشانہ بنائیں گے۔
ترک صدر نے کہا تھا کہ 'اگر ہماری نگراں پوسٹوں یا دیگر مقامات پر تعینات فوجیوں کو معمولی سی چوٹ بھی لگی تو میں یہاں سے اعلان کر رہا ہوں کہ ہم ادلب کی سرحدوں یا امن معاہدے کی پرواہ کیے بغیر ہر جگہ شامی حکومت کی افواج کو نشانہ بنائیں گے۔'
علاوہ ازیں چند روز قبل انقرہ نے خبردار کیا تھا کہ اگر شام کے شمال مغرب سے متعلق 'محفوظ زون' کے امن معاہدے کی خلاف ورزیاں جاری رہیں تو انقرہ پلان بی (ایکشن) پر عملدرآمد شروع کردے گا۔
یہ بھی پڑھیں: 'ترک فوج کو معمولی خراش بھی آئی تو شامی فورسز کو ہر جگہ نشانہ بنائیں گے'
ترکی کے وزیر دفاع ہولوسی آکار نے کہا کہ 'اگر معاہدے کی خلاف ورزی ہوتی رہی تو ہمارے پاس پلان بی اور پلان سی ہے'۔
واضح رہے کہ روس کے ساتھ 2018 کے معاہدے کی رو سے ترکی نے ادلب میں 12 پوسٹیں قائم کی تھیں۔
اس ضمن میں ترکی کے سیکیورٹی ذرائع نے بتایا کہ رواں ماہ کے اوائل میں مذکورہ چیک پوسٹوں میں سے 3 پوسٹوں کو شام کے صدر بشارالاسد کی سرکاری فورسز نے گھیرے میں لے لیا تھا۔
جس پر ترک صدر رجب طیب اردوان نے دمشق کو چوکیوں سے پیچھے ہٹنے کا کہتے ہوئے خبردار کیا تھا کہ اگر وہ ایسا نہیں کرتے ہیں تو انقرہ (فوجی کارروائی کے ذریعے) انہیں واپس بھیج دے گا۔
خیال رہے کہ اقوام متحدہ کے سابق سیکرٹری جنرل بان کی مون نے کہا تھا کہ شامی عوام 'وقت کے بدترین انسانی بحران' سے گزر رہے ہیں اور 'شامی بچوں کی روحیں پریشانی کا شکار' ہیں۔
مزید پڑھیں: ترکی، امریکا شمال مشرقی شام میں جنگ بندی پر راضی ہوگئے، مائیک پینس
کویت میں ہونے والی بین الاقوامی عہد کے عنوان سے تیسری کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ علاقائی استحکام کو مایوسی کے بوجھ تلے دبانے کی کوششیں کی جارہی ہیں۔
کانفرنس شام میں جاری کشیدہ صورتحال کے باعث ملک بھر میں ہونے والے نقصان اور شہریوں کی امداد کے لئے بین الاقوامی عطیات حاصل کرنے کے لیے منعقد کی گئی تھی ، جس میں گزشتہ سال کے مقابلے میں 4 گناہ زائد 84 ارب ڈالرز جمع کروانے کی اپیل کی گئی ہے۔