پاکستانی سیاست: ٹرین اور پجیرو سے اڑن کھٹولوں تک کا سفر
80ء کی دہائی تک ریلوے کو سیاست کا اہم ذریعہ سمجھا جاتا تھا اور سیاسی جماعتیں عوامی رابطے کے لیے ٹرین مارچ کیا کرتی تھیں جن میں سیاسی قائدین ہر اسٹیشن پر پہنچ کر مقامی افراد سے خطاب کیا کرتے تھے۔
ذوالفقار علی بھٹو نے بھی بطور وزیرِ خارجہ استعفیٰ دے کر ٹرین کے سفر کے ذریعے ہی اپنی سیاست کے نئے دور کی ابتداء کی تھی۔ ماضی کی سیاست میں ملک گیر سیاسی جماعتوں کے رہنما ٹرین میں سفر کیا کرتے تھے کیوں کہ اس دور میں ٹرین ہی محفوظ اور قابل بھروسہ ذریعہ سفر تھی اور سیاستدانوں کی زندگی کا بڑا حصہ اپنے گھر کے بجائے ٹرین میں سفر کرتے گزر جاتا تھا۔
مگر اب نہ وہ سیاستدان رہے، نہ وہ ٹرین مارچ اور نہ ہی سیاستدانوں کے ٹرینوں کے سفر رہے۔ یہ ٹرین کا سفر سیاستدانوں کے ساتھ ساتھ ان کے صحافی دوستوں کا بھی سفر ہوتا تھا جو دورانِ سفر سیاستدانوں کا انٹرویو کرتے اور اگلے اسٹیشن پر اتر جاتے۔
80ء کی دہائی میں پاکستان میں سڑکوں اور شاہراہوں کی تعمیر کا ایک نیا سلسلہ شروع ہوا اور اس کے ساتھ ہی ریلوے پر حکومتی توجہ ہٹتی چلی گئی جس نے ریلوے اور ٹرین کی سیاسی اہمیت کم کردی۔ سیاستدانوں نے شاہراہوں کے ذریعے عوامی رابطے شروع کیے اور ریلیوں کا دور شروع ہوا۔
آپ کو امیر جماعت اسلامی قاضی حسین احمد کا محبت امن مارچ تو یاد ہی ہوگا جو خیبر سے کراچی تک جماعت اسلامی میں ایک نئی روح پیدا کرنے کا سبب بنا۔ اگرچہ قاضی حسین احمد شفیق اور نرم گو انسان تھے مگر اس کے باوجود انہوں نے سیاست میں نہایت سرگرمی دکھائی اور اسی سیاست میں نئے نئے بیانیے بھی متعارف کروائے۔
جب وہ امیر جماعت اسلامی بنے اس وقت سیاست میں پیسے اور دولت کا عمل دخل بڑھ رہا تھا۔ سیاستدان ٹرین چھوڑ کر پجیرو میں سفر کرنے کو اپنی شان سمجھتے تھے۔ اسی لئے انہوں نے اس وقت کی سیاست کو پجیرو سیاست یا پجیرو کلچر کا نام دیا تھا۔
گزشتہ رات تک ملک میں انتخابی مہم اپنے عروج پر تھی اور اسی لیے زیادہ سے زیادہ لوگوں تک اپنا پیغام پہنچانے کے لیے سیاستدانوں نے جلسوں، جلوسوں اور عوامی رابطوں کا سلسلہ تیز کردیا تھا۔ اس تیزی میں ٹرین اور پجیرو کے بجائے ہمیں ہر گزرتے دن کے ساتھ اڑن کھٹولے کا اہم کردار دیکھنے کو ملا۔ اب آپ پوچھیں گے یہ اڑن کھٹولا کیا ہے تو بھائی اب سیاستدان نہ ٹرین میں سفر کرتے ہیں اور نہ ہی پجیرو میں ملک گیر عوامی رابطہ مہم کرتے ہیں۔ اب تو معاملہ یہ ہے کہ سیاستدان پرائیویٹ جیٹ (چھوٹے ہوائی جہاز) اور ہیلی کاپٹرز میں سفر کرکے عوام سے غربت دور کرنے اور کرپشن کے خاتمے کا اعلان کرتے پھرتے ہیں۔
لہٰذا سیاست دانوں کے ان اڑن کھٹولوں کا ذکر کرنے سے ہم کوشش کریں گے کہ اُس عوام پر بات کرلی جائے جس سے یہ سیاستدان غربت ختم کرنے کا وعدہ کررہے ہیں۔ پاکستان میں فی کس آمدنی 1629 ڈالر سالانہ ہے اور ملک کی تقریباً 30 فیصد آبادی خط غربت سے نیچے زندگی گزار رہی ہے۔ اس طرح مجموعی آبادی میں سے 5 کروڑ 50 لاکھ سے زائد افراد ایسے ہیں جن کی یومیہ آمدنی ڈیڑھ ڈالر سے بھی کم ہے۔ 90 لاکھ سے زائد بچے اسکول ہی نہیں جاتے اور جو بچے اسکول جاتے ہیں انہیں معیاری تعلیم بھی دستیاب نہیں ہے۔
اس کے ساتھ ساتھ ہیومن ڈیولپمنٹ انڈیکس میں 188 ملکوں میں سے پاکستان 144ویں نمبر پر ہے۔ ان اعداد و شمار کو دیکھ کر اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ پاکستان میں انسانی ترقی، غربت اور آمدنی کی کیا صورتحال ہے۔
جہاں ترقی اور غربت کی یہ صورتحال ہو وہاں سیاستدان غربت ختم کرنے کے وعدے شاہانہ طرز کی انتخابی مہم کے ذریعے کر رہے ہیں۔ اس مہم میں نہ صرف امیدوار اور پارٹیاں پانی کی طرح پیسہ بہا رہی ہیں بلکہ ایسے ایسے اقدامات بھی اٹھائے جارہے ہیں کہ جنہیں دیکھ کر عقل دنگ رہ جاتی ہے۔
پاکستان میں نجی طیاروں کی صنعت متعارف کروانے کا سہرا غوث اکبر کے سر جاتا ہے جنہوں نے سال 2000ء میں پرنسلے جیٹ کے نام سے کمپنی قائم کی جو پاکستان میں ہیلی کاپٹر اور ایگزیکٹو طیارے کرائے پر فراہم کرتی ہے۔
غوث اکبر کا کہنا ہے کہ پاکستان کی سیاست میں نجی ہوابازی اور لگژری طیاروں کا استعمال سال 2008ء میں شروع ہوا۔ پاکستان پیپلز پارٹی کی سیاسی قیادت نے انتخابی مہم چلانے کے لیے طیارے چارٹر کیے۔ سال 2013ء میں دوسری جماعتوں نے سوچا کہ وہ پیچھے کیوں رہیں، لہٰذا پاکستان پیپلز پارٹی کے علاوہ پاکستان تحریک انصاف اور مسلم لیگ (ن) نے بھی طیارے اور ہیلی کاپٹر کرائے پر حاصل کرنے شروع کردیے۔
کرائے پر طیارے اور ہیلی کاپٹر لینے کا سلسلہ رکا نہیں ہے بلکہ اس میں مزید جماعتیں بھی شامل ہوگئی ہیں۔ سال 2018ء میں انتخابی مہم کے لیے پیپلزپارٹی، تحریک انصاف اور مسلم لیگ (ن) کے علاوہ عوامی نیشنل پارٹی اور بلوچستان کی ایک سیاسی جماعت بھی شامل ہے جنہوں نے اپنے لیڈران کی بروقت نقل و حرکت کے لیے یہ طیارے کرائے پر حاصل کیے ہیں۔ بلوچستان کے چند آزاد امیدواروں نے بھی انتخابی مہم کے لیے ہیلی کاپٹرز حاصل کیے ہیں۔
غوث اکبر کا کہنا ہے کہ ایوی ایشن کی صنعت بہت زیادہ ریگولیٹڈ ہے اور اس میں کوئی بھی چیز چھپائی نہیں جاسکتی ہے۔ اس لیے جو بھی سیاسی جماعت ان سے طیارے کرائے پر حاصل کرتی ہے وہ تمام تر ٹیکس دینے کے علاوہ دیگر قانونی چارہ جوئی بھی مکمل کرتی ہے۔ ان کے مطابق انتخابات میں سیاسی جماعتوں کو مختصر فاصلوں کی زیادہ پروازیں کرنی ہوتی ہیں اس لیے وہ زیادہ تر کوشش کرتے ہیں کہ طیاروں کے بجائے ہیلی کاپٹروں کا استعمال کریں۔
پرنسلے کے پاس پہلے سے 2 ہوائی جہاز اور 3 ہیلی کاپٹر موجود ہیں اور طلب کو پورا کرنے کے لیے ایک اے ڈبلیو 139 اور ایم آئی 17 ہیلی کاپٹر کو قلیل مدتی لیز پر حاصل کیا گیا ہے۔
پاکستان پیپلز پارٹی نے سال 2013ء کی انتخابی مہم میں کسی نجی کمپنی کے بجائے اپنے کاروباری دوستوں کے طیاروں اور ہیلی کاپٹرز کو استعمال کیا جبکہ تحریک انصاف اور مسلم لیگ (ن) نے طیارے کرائے پر حاصل کیے۔ دونوں جماعتوں نے پُرتعیش انتخابی مہم کے لیے ہیلی کاپٹرز اور جیٹ طیاروں میں مجموعی طور پر 207 پروازیں کیں اور تقریبآ 160 گھنٹے فضاء میں گزارے۔
مسلم لیگ (ن) نے سال 2013ء میں 95 گھنٹے سے زائد پرواز کی جبکہ تحریک انصاف کی پرواز کا دورانیہ بھی 75 گھنٹے سے زیادہ تھا۔ 2013ء میں اس حوالے سے زیادہ آگاہی نہیں تھی اور مسلم لیگ (ن) نے طیاروں کو سب سے زیادہ استعمال کیا مگر اب آگاہی میں اضافہ ہوگیا ہے۔ سال 2013ء کے انتخابات میں عمران خان نے جہانگیر ترین کے طیارے کو استعمال کیا تھا۔
لیکن سال 2018 میں انتخابی مہم کے دوران ان سیاستدانوں نے کتنے گھنٹے فضائی سفر کیا ہے اس کے اعداد و شمار مرتب ہونے میں چند ہفتے درکار ہوں گے۔
گزشتہ دنوں ہم چند رپورٹرز کی ہمارے ایک پائلٹ دوست سے ملاقات ہوئی۔ یاد رہے کہ ہمارا یہ پائلٹ دوست مسلح افواج کے ایوی ایشن ونگ سے ریٹائرڈ ہیں اور اب ایک نجی کمپنی میں پائلٹ کے فرائض سرانجام دے رہے ہیں۔ پائلٹ صاحب سال 2013ء میں طیارے چارٹر کرنے والی کمپنی میں کام کر رہے تھے اور انہوں نے انتخابات میں سیاسی لیڈران کی پروازیں کی تھیں۔
ہمارے پائلٹ صاحب کا کہنا ہے کہ لگژری طیارے ہوں یا ہیلی کاپٹر وہ تمام تر آرائش سے آراستہ ہوتے ہیں اور آرام دہ ماحول میں سیاستدان اکثر دوران پرواز یا تو کھانا کھاتے ہیں یا پھر سستاتے ہیں۔ اس مقصد کے لیے کمپنی سیاستدانوں کے لیے وی وی آئی پی کھانوں کا بندوبست کرتی ہے اور کھانے کے اہتمام میں ذاتی پسند اور ناپسند کا خیال رکھا جاتا ہے۔
ہمارے پائلٹ دوست کا کہنا تھا کہ سیاستدان اپنی ضرورت سے بڑا طیارہ اور ہیلی کاپٹر کرائے پر حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں تاکہ نہ صرف وہ خود اور ان کا اسٹاف اس طیارے میں سفر کرسکے، بلکہ ان کے ساتھ صحافیوں کو بھی طیارے میں سفر کروایا جائے اور اسی میں انہیں انٹرویو ریکارڈ کروایا جائے۔ اسی لیے سیاستدانوں کی جانب سے زیادہ گنجائش والے اڑن کھٹولوں کی فرمائش کی جاتی ہے۔
مزید پڑھیے: پیسوں والی سیاست نامنظور!
غوث اکبر انتخابی مہم میں ایوی ایشن کے استعمال کی بھرپور حمایت کرتے نظر آتے ہیں اور ان کا دعویٰ ہے کہ سیاسی جماعتیں قیمت اور فائدے کے تناسب (cost-to-benefit ration) کے اصول پر فضائی سفر کو ترجیح دیتی ہیں کیوں کہ موجودہ حالات میں اگر سیاستدان زمینی راستے سے سفر کرے تو اس کا وقت زیادہ لگنے کے ساتھ ساتھ مہنگا بھی پڑے گا۔ ایک سیاستدان کے قافلے میں کم از کم 50 گاڑیاں ہوں گی جس میں بڑی تعداد بم اور بلٹ پروف گاڑیوں کی ہوگی۔
اس کے علاوہ سیکیورٹی اہلکاروں اور ان کی گاڑیوں کا خرچہ الگ ہوگا۔ تو اس لیے کسی بھی سیاستدان کے لیے بروقت اور کم خرچ میں ووٹرز تک پہنچنے کا سب سے اہم ذریعہ یہ اڑن کھٹولے ہی ہیں۔
اپنے خرچ کے لحاظ سے فی گھنٹہ پرواز کا خرچہ علاقائی لحاظ سے مختلف ہوسکتا ہے۔ ایک گھنٹہ فضائی سفر کا خرچ کم از کم 5 سے 7 ہزار ڈالر ہوتا ہے۔ یہ خرچ ڈالر میں اس لیے لیا جاتا ہے کہ زیرِ استعمال اڑن کھٹولوں کو بیرون ملک سے لیز پر لیا جاتا ہے۔
طیاروں اور ہیلی کاپٹروں کی بکنگ کے تناظر میں جلسوں کا وقت طے کیا جاتا ہے اور اس طرح سے روٹ مرتب کیا جاتا ہے کہ ہیلی کاپٹر کا ایندھن کم سے کم خرچ ہو اور زیادہ سے زیادہ جلسوں میں شرکت کی جاسکے۔ اس کام کے لیے پاک فوج کے تعمیراتی ونگ ایف ڈبلیو او کا ہیلی کاپٹر بھی چارٹر کروایا جاسکتا ہے۔
مگر اس فضائی سفر میں سہولت اور تعیش کے ساتھ ساتھ بعض قباحتیں بھی ہیں۔ ہیلی کاپٹر کو پاکستان میں رات کے وقت اڑنے کی اجازت نہیں ہے۔ اسی لیے آپ نے دیکھا ہوگا کہ عمران خان جہلم میں جب جلسے کے لیے پہنچے تو پنڈال تقریباً خالی تھا لیکن مجبوراً انہیں خالی پنڈال سے ہی خطاب کرنا پڑا جس کی وجہ خود عمران خان نے بتائی کہ یہ ہیلی کاپٹر رات کے وقت پرواز نہیں کرسکتا۔
یہ تمام باتیں لکھتے ہوئے مجھے پنجاب کے صحرا میں عید کے موقع پر گُم ہوجانے والی ان 3 بہنوں کی یاد آگئی جو گرمی اور طوفانی ہواؤں میں اپنا راستہ بھول کر پیاس اور گرمی کی شدت سے صحراء میں تڑپ تڑپ کر جان سے چلی گئیں۔
کاش ان بچیوں کو ان اڑن کھٹولے تو کیا زمین پر سفر کرنے کے لیے کوئی سواری دستیاب ہوتی۔ کیا ان اڑن کھٹولوں پر سفر کرنے والے سیاستدان صحرا میں پیاس سے مرنے والی بچیوں کی تڑپ کا اندازہ کرسکیں گے اور ان جیسے مظلوم عوام کے لیے کچھ کرسکیں گے؟
تبصرے (5) بند ہیں