حکومت انکوائری کمیشن بل منظور کرانے میں ناکام
اسلام آباد: حکومت کو قومی اسمبلی میں اس وقت شرمندگی کا سامنا کرنا پڑا جب اپوزیشن کے بائیکاٹ کے باعث کورم پورا نہ ہونے پر اسے اپنے انکوائری کمیشن بل کی منظوری میں ناکامی ہوئی۔
جیسے ہی وفاقی وزیر قانون زاہد حامد نے ’پاکستان کمیشنز آف انکوائری بل 2016‘ منظوری کے لیے پیش کیا، اپوزیشن اراکین بالخصوص پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) نے اس پر احتجاج کرتے ہوئے اجلاس کا بائیکاٹ کردیا۔
پھر جیسے ہی زاہد حامد اپوزیشن کے پوائنٹس کا جواب دینے کے لیے اٹھے، پیپلز پارٹی کی شازیہ مری نے کورم پورا نہ ہونے کی نشاندہی کی۔
اس بات کا اندازہ لگاتے ہوئے کہ حکومت کے پاس بل کی منظوری کے لیے مطلوبہ اراکین نہیں ہیں، ڈپٹی اسپیکر مرتضیٰ جاوید عباسی نے اجلاس کے ایجنڈے پر موجود دیگر امور پر بحث نہ ہونے کے باوجود فوراً اسمبلی کا اجلاس جمعہ کی صبح تک ملتوی کردیا۔
یہ بھی پڑھیں: پاناما لیکس تحقیقات، اپوزیشن نے سینیٹ میں بل جمع کرادیا
قبل ازیں قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر سید خورشید شاہ نے پارلیمنٹ کو اہمیت نہ دینے پر وزیر اعظم نواز شریف کو تنقید کا نشانہ بنایا۔
اس دوران اپوزیشن اراکین کی جانب سے ’شیم، شیم‘ کے نعرے بھی لگائے گئے۔
سید خورشید شاہ کا کہنا تھا کہ گزشتہ تین سالوں نے انہوں نے پارلیمنٹ کے 96 فیصد اجلاس میں شرکت کی، جبکہ اس عرصے میں وزیراعظم کی حاضری کی شرح صرف 11 فیصد رہی۔
انہوں نے حکومت کو کورم کے تقاضے پورے کیے بغیر کوئی بل منظور کے خلاف بھی تنبیہہ کی، جس کے لیے کم از کم 86 اراکین (کل 342 اراکین کا ایک چوتھائی) کی موجودگی ضروری ہے۔
گزشتہ ماہ قومی اسمبلی کی قانون و انصاف کمیٹی کی جانب سے، اپوزیشن اراکین کی غیر موجودگی میں منظور کیے گئے بل کی مخالفت کرتے ہوئے پاکستان پیپلز پارٹی کے پارلیمانی لیڈر سید نوید قمر کا کہنا تھا کہ ’حکومت نے یہ بل اس وقت متعارف کرایا جب سپریم کورٹ، پاناما لیکس کے حوالے سے موجودہ 1956 کے ایکٹ کے تحت انکوائری کمیشن کی تشکیل کی حکومتی درخواست مسترد کرچکی تھی۔‘
تاہم انہوں نے دعویٰ کیا کہ ’موجودہ اور مجوزہ قوانین میں کوئی خاص فرق نہیں ہے اور حکومت صرف پرانے قانون کو نئے نام سے دوبارہ متعارف کرا رہی ہے۔‘
مزید پڑھیں: پاناما تحقیقات میں تاخیر کا الزام، اپوزیشن کا احتجاج
انہوں نے حکومت سے پاناما لیکس کے حوالے سے اپوزیشن کی جانب سے سینیٹ میں پیش کیے گئے بل کو قبول کرنے کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا کہ ’حکومت اپنا بل ایسے وقت میں متعارف کرا رہی ہے، جب سپریم کورٹ کا 5 رکنی بینچ آئین کے آرٹیکل 184 کے تحت پاناما لیکس کی سماعت کر رہا ہے، جب کہ حکومت کے اس اقدام کی ججز بھی حمایت نہیں کریں گے۔‘
جماعت اسلامی اور متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) کے اراکین نے بھی پیپلز پارٹی کے موقف کی حمایت کرتے ہوئے کہا کہ وہ ایسا کوئی مجوزہ قانون قبول نہیں کرسکتے جو انہیں اعتماد میں لیے بغیر متعارف کرایا گیا ہو۔
یاد رہے کہ پاناما لیکس اسکینڈل کے حوالے سے اپوزیشن کی جانب سے سینیٹ سیکریٹریٹ میں جوڈیشل کمیشن کے قیام کا بل جمع کرائے جانے کے بعد وفاقی کابینہ نے 31 اگست کو مجوزہ بل کے مسودے کی منظوری دی تھی۔
کابینہ کی جانب سے مسودے کی منظوری کے بعد وفاقی وزیر خزانہ اسحٰق ڈار کا کہنا تھا کہ نیا قانون پرانے قانون کی جگہ لے گا۔
تاہم ان کا کہنا تھا کہ ’عام تاثر پایا جاتا ہے کہ قانون میں تبدیلی لائی جائے اور کمیشن کو بااختیار بنایا جائے'۔
یہ بھی پڑھیں: پاناما لیکس : حکومت اور اپوزیشن قانونی جنگ کیلئے تیار
حکومت کے مجوزہ قانون کے تحت ’وفاقی حکومت کو عوامی اہمیت کے کسی بھی معاملے کی انکوائری کے لیے تین رکنی کمیشن کی تشکیل کا اختیار حاصل ہوگا۔‘
یہ کمیشن معاملے کی انکوائری کرے گا اور نوٹی فکیشن میں موجود ٹرمز آف ریفرنسز (ٹی او آر) کے تحت فرائض انجام دے گا۔
کمیشن کو اپنی معاونت کے لیے معاملے کے مطابق خصوصی ٹیمیں تشکیل دینے کا اختیار بھی حاصل ہوگا۔
ایل او سی کشیدگی
قومی اسمبلی کے اجلاس کے دوران حکومتی اور اپوزیشن اراکین کے درمیان اس وقت تکرار بھی ہوئی، جب سید خورشید شاہ نے الزام لگایا کہ ’پاکستان کے خلاف بھارت کی بربریت میں، کنٹرل لائن پر معصوم شہریوں کی ہلاکت پر حکمرانوں کی خاموشی کے باعث اضافہ ہوا۔‘
انہوں نے کہا کہ ’بھارت نے پاکستان کے خلاف جارحانہ پالیسی اپنا رکھی ہے، کیونکہ اسے پتہ ہے کہ پاکستان کی ’دوستانہ حکومت‘ اس پر کوئی احتجاج نہیں کرے گی۔‘
ان کا کہنا تھا کہ بھارت اب معصوم شہریوں کو نشانہ بنا رہا ہے، جس کے بعد وقت آگیا ہے کہ پاکستان اسے اس کے انداز میں ہی جواب دے۔
خورشید شاہ نے کہا کہ ’ہم جنگ نہیں چاہتے، لیکن ہم کب تک اپنے معصوم لوگوں کی لاشیں اٹھاتے رہیں گے۔‘
انہوں نے حکومت کو آئندہ ماہ بھارت میں ہونے والی ’ہارٹ آف ایشیا‘ کانفرنس میں احتجاجاً شرکت نہ کرنے کا بھی مشورہ دیا۔
اپوزیشن لیڈر کی باتوں کا جواب دیتے ہوئے ریاستی و سرحدی امور کے وزیر لیفٹیننٹ جنرل ریٹائرڈ عبد القادر بلوچ نے کہا کہ ’یہ کہنا غلط ہے کہ حکومت بھارت کی جانب سے ایل او سی پر سیز فائر معاہدے کی خلاف ورزی پر خاموش ہے۔‘
انہوں نے کہا کہ ’مسلح افواج بھارتی جارحیت کا منہ توڑ جواب دے رہی ہیں، جبکہ بھارت کو یہ سمجھنا چاہیے کہ جنگ نقصان دہ ہوگی'۔
ڈپٹی اسپیکر نے اعلان کیا کہ جمعہ کے روز اجلاس میں لائن آف کنٹرول کی صورتحال پر جامع بحث ہوگی۔
یہ خبر 25 نومبر 2016 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی۔