• KHI: Asr 4:07pm Maghrib 5:43pm
  • LHR: Asr 3:24pm Maghrib 5:01pm
  • ISB: Asr 3:24pm Maghrib 5:01pm
  • KHI: Asr 4:07pm Maghrib 5:43pm
  • LHR: Asr 3:24pm Maghrib 5:01pm
  • ISB: Asr 3:24pm Maghrib 5:01pm

بریگزٹ سے پاکستان میں ترسیلات زر متاثر

شائع August 25, 2016

لندن: برطانیہ کے یورپی یونین سے علیحدگی کے فیصلے کے بعد وہاں سے گزشتہ ماہ پاکستان بھیجی جانے والی ترسیلات زر کے حجم میں بھی واضح کمی واقع ہوئی۔

برطانیہ کی یورپی یونین سے علیحدگی(بریگزٹ) کے منفی اثرات برطانوی کرنسی پر بھی پڑے جس کی وجہ سے ان پاکستانیوں کو پہلے کے مقابلے میں کم رقم ملی جن کے رشتے دار برطانیہ میں ملازمت کرتے ہیں۔

برطانیہ میں یورپی یونین سے علیحدگی کے حوالے سے ریفرنڈم 23 جون 2016 کو ہوا تھا اور محض دو دن بعد برطانوی پائونڈ کی قدر ڈالر کے مقابلے میں 9 فیصد تک کم ہوگئی تھی اور پھر اس میں مزید کمی کا سلسلہ شروع ہوگیا تھا۔

یہ بھی پڑھیں: پاکستان میں 20 ارب ڈالر کے ترسیلات زر کی آمد

پائونڈ کی قدر روپے کے مقابلے میں بھی 13 فیصد تک کم ہوئی ہے، 23 جون کو ایک پائونڈ 156 روپے کا تھا جو اب 135 کا ہوچکا ہے۔

اسٹیٹ بینک آف پاکستان(ایس بی پی) کے اعداد و شمار کے مطابق جون کے مہینے میں برطانیہ میں مقیم پاکستانیوں کی جانب سے 30 کروڑ 90 لاکھ ڈالر پاکستان بھیجے گئے تاہم جولائی میں یہ حجم کم ہوکر محض 14 کروڑ 30 لاکھ ڈالر رہ گیا۔

تاہم ترسیلات زر میں ہونے والی کمی کی وجہ صرف بریگزٹ نہیں، عام طور پر عید سے قبل ترسیلات زر کی آمد میں اضافہ ہوجاتا ہے اور عید کی تعطیلات اور بینکنگ کی سہولتیں دستیاب نہ ہونے کی وجہ سے اس میں کمی آجاتی ہے۔

ایس بی پی کا کہنا ہے کہ جولائی 2016 میں ترسیلات زر میں ہونے والی کمی کی وجہ بہت حد تک وقتی تھی اور رمضان کی وجہ سے اس پر منفی اثر پڑا۔

اسٹیٹ بینک کا مزید کہنا تھا کہ جولائی 2016 کے آغاز میں بینکنگ سروسز زیادہ تر معطل رہیں، پاکستان میں یکم جولائی اور پھر 5 جولائی سے 8 جولائی تک بینک بند رہے جبکہ امریکا میں 4، 9 اور 10 جولائی کو بینک بند رہے۔

سینٹر برائے گلوبل ڈویلپمنٹ سے تعلق رکھنے والے میٹ کولن کہتے ہیں کہ ترسیلات زر میں ہونے والی کمی میں کسی حد تک بریگزٹ کا کردار ہوسکتا ہے لیکن اسے فی الحال مکمل طور پر ذمہ دار نہیں ٹھہرایا جاسکتا۔

2015 میں برطانیہ سے مجموعی طور پر 1.4 ارب ڈالر جبکہ امریکا سے 1.1 ارب ڈالر پاکستان بھیجے گئے، اس کے علاوہ متحدہ عرب امارات سے 4.8 ارب ڈالر اور سعودی عرب سے 5 ارب ڈالر کے ترسیلات زر پاکستان بھیجے گئے۔

گزستہ چند برسوں کے دوران مغربی ممالک کے مقابلے میں مشرق وسطیٰ سے موصول ہونے والی ترسیلات زر کی شرح میں اضافہ ہوا ہے۔

پاکستان کے مقابلے میں ہندوستان کو حاصل ہونے والی ترسیلات زر کا حجم کہیں زیادہ ہے، 2015 میں مجموعی طور پر 72 ارب ڈالر انڈیا بھیجے گئے جبکہ پاکستان کو صرف 20 ارب ڈالر کی ترسیلات زر موصول ہوئیں۔

یہ بھی پڑھیں: رمضان میں ترسیلات زر دو ارب ڈالرز تک پہنچنے کا امکان

پاکستان کی 280 ارب ڈالر کی مجموعی قومی پیداوار میں ترسیلات زر کا اہم کردار ہوتا ہے اور چند برسوں سے پاکستان کو موصول ہونے والی مجموعی ترسیلات زر میں تیزی سے اضافہ دیکھنے میں آرہا ہے۔

یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ بیرون ملک پاکستانی کرنسی کی قدر میں ہونے والی کمی کے نقصان سے بچنے کیلئے سخت محنت کرتے ہیں لیکن ایسی صورتحال میں جو بریگزٹ کے بعد پیدا ہوئی، ان کی محنت زیادہ سود مند ثابت نہیں ہوتی۔

مزید برآں جیسا کہ بہت سے ماہرین پیشنگوئی کررہے ہیں، بریگزٹ کے بعد اگر معاشی بحران کی کیفیت پیدا ہوئی تو اس کی وجہ سے آمدنی اور ترسیلات زر کے بہاؤ میں مزید کمی ہوسکتی ہے۔

برطانوی حکومت میں بریگزٹ کے حامی وزراء اب تک اس بات کا فیصلہ نہیں کرسکے ہیں کہ برطانیہ کی یورپی یونین سے علیحدگی کس طرح ہوگی اور ان کے اہداف کیا ہیں۔

مزیر پڑھیں:بیرون ملک پاکستانیوں کی ترسیلاتِ زر میں 11.45 فیصد اضافہ

سب سے اہم فیصلہ برطانیہ کو یہ کرنا ہوگا کہ آیا وہ سنگل یورپین مارکیٹ کا حصہ رہنا چاہتا ہے یا نہیں اور اگر برطانیہ نے سنگل مارکیٹ سے نکلنے کا فیصلہ کیا تو مالیاتی خدمات فراہم کرنے والی کمپنیوں کو اپنے نام نہاد پاسپورٹنگ رائٹس سے دستبردار ہونا ہوگا جس کی بناء پر وہ یورپ بھر میں آزادانہ طور پر کام کررہی ہیں۔

اس کی وجہ سے ان مالیاتی اداروں کی برطانیہ سے دیگر یورپی ممالک تک ترسیلات زر بھیجنے کی صلاحتیں بھی متاثر ہوں گی۔

عالمی سطح پر لگائے جانے والے تخمینے کے مطابق ترسیلات زر کا حجم امدادی رقوم کی منتقلی کے حجم سے تین گنا زیادہ ہے۔

پاکستان اور اس جیسے دیگر ترقی پذیر ممالک کیلئے زر مبادلہ کے ذخائر میں اضافے کیلئے غیر ملکی امداد سے زیادہ ترسیلات زر کی زیادہ اہمیت ہوتی ہے۔

ترسیلات زر کا حجم زیادہ ہونا اس کی وجہ نہیں بلکہ عام طور پر انہیں آمدنی کا زیادہ قابل اعتماد ذریعہ تصور کیا جاتا ہے جبکہ امدادی رقم کسی بھی وقت فنڈز فراہم کرنے والے ملک کے بجٹ مسائل اور عالمی پابندیوں کی وجہ سے روکی جاسکتی ہے۔

یہ خبر 25 اگست 2016 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی


کارٹون

کارٹون : 22 نومبر 2024
کارٹون : 21 نومبر 2024