ضربِ عضب کے بعد
شمالی وزیرستان میں جنگ اب تک جاری ہے، لیکن ضربِ عضب نے شکوک و شبہات رکھنے والوں کو خاموش کروا دیا ہے۔ شمالی وزیرستان کو دہشتگردوں کی محفوظ جنت اور سکیورٹی فورسز کا قبرستان کہا جاتا تھا، لیکن اس آپریشن نے اس تاثر کی دھجیاں بکھیر دی ہیں۔
صرف چند ہی سیاسی رہنماؤں نے عوامی طور پر اس آپریشن کی حمایت کی تھی۔ دوسری جانب کچھ کھلے عام طالبان کے حمایتی تھے، تو چند کے ذہنوں میں خوف اور سیاسی نتائج کا ڈر موجود تھا۔ کئی نے تو یہاں تک کہہ دیا تھا کہ آپریشن صرف مزید تشدد کو فروغ دے گا، اور ملک کے تقسیم ہونے پر منتج ہوگا۔
ایک سال کے بعد ہمارے سپاہیوں کی گرانقدر قربانیوں کے نتیجے میں پاک فوج نے اپنے کئی مقاصد حاصل کر لیے ہیں۔ سکیورٹی اہلکاروں کے زخمی و جاں بحق ہونے کے اعداد و شمار کو دیکھا جائے، تو اس میدانِ جنگ کی سختی کا اندازہ لگانا مشکل نہیں۔ بلاشبہ قبائلی علاقوں میں لڑی جانے والی یہ جنگ ہماری سکیورٹی فورسز کی لڑی گئی اب تک کی تمام جنگوں میں سے کٹھن ترین ہے۔
یہ پہلی بار نہیں ہے کہ خطرناک قرار دی جانے والی ایسی کسی ایجنسی میں فوجی آپریشن کیا جا رہا ہو، جہاں ہر طرح کے مقامی اور بین الاقوامی دہشتگرد گروہ پناہ لیے ہوئے ہیں۔ قومی قیادت کی جانب سے حالات کی سنگینی سے انکار، اور فیصلہ لینے میں تاخیر نے اس علاقے کا قبضہ واپس حاصل کرنا مزید مشکل بنا دیا تھا۔
کئی علاقوں کے بارے میں یقین ہے کہ وہ اب دہشتگردوں اور دراندازوں سے مکمل طور پر خالی ہوچکے ہیں، لیکن خطے کو مکمل طور پر دہشتگردوں سے پاک قرار دینے میں ابھی کافی وقت لگنے والا ہے۔ دہشتگردوں کا وہ نیٹ ورک جس نے قومی اور علاقائی سلامتی کو خطرے میں ڈال رکھا تھا، کافی حد تک بکھر گیا ہے، لیکن مکمل طور پر تباہ نہیں ہوا ہے۔ اب بھی ایسی جگہیں موجود ہیں جہاں سے مزاحمت ہورہی ہے، اور دہشتگرد اپنے ان ٹھکانوں میں پناہ لیے ہوئے ہیں، جبکہ کئی نے افغان سرحد کے دوسری جانب پناہ لے لی ہے۔
سب سے سخت ترین جنگ وادیء شوال میں لڑی جائے گی، جو کہ انتہائی دشوار گزار علاقہ ہے۔ گھنے جنگلات اور اونچائی دہشتگردوں کو قدرتی کیموفلاج فراہم کرتی ہے، اور اس پہاڑی علاقے میں جنگجوؤں کا تعاقب کرنا مشکل ثابت ہوسکتا ہے۔ یہ وادی جنوبی اور شمالی وزیرستان دونوں میں پھیلی ہوئی ہے، جس کی وجہ سے دہشتگردوں کے لیے پاک افغان سرحد عبور کرنا آسان ہے۔
پاک فضائیہ کے طیارے اس وادی میں دہشتگردوں کے مشتبہ ٹھکانوں پر مسلسل بمباری کیے جارہے ہیں، لیکن یہ اب بھی واضح نہیں ہے کہ موسمِ سرما کی آمد سے قبل فوج یہاں زمینی کارروائی کا آغاز کرے گی یا نہیں۔ ایک اور سنجیدہ خدشہ سپاہیوں کو متوقع جانی نقصان ہے۔ یہ اگر آپریشن کا نازک ترین مرحلہ نہیں، تو بھی انتہائی نازک مرحلہ ضرور ہوگا۔
لیکن ایک اہم بات یہ ہے کہ شمالی وزیرستان میں فوجی آپریشن کے نتیجے میں ملک میں دہشتگردوں کی پرتشدد کارروائیوں میں انتہائی کمی آ چکی ہے، جس سے دہشتگرد گروہوں اور اس ایجنسی کا براہِ راست تعلق ثابت ہوتا ہے۔ بھلے ہی فرقہ وارانہ اور مذہبی بنیادوں پر تشدد جاری رہا ہے، لیکن دہشتگرد گروہوں کی کوئی بڑا حملہ کرنے کی سکت کو کافی نقصان پہنچا ہے۔ اس کی ایک بڑی وجہ شہروں میں سکیورٹی اور انٹیلیجنس حکام کی جانب سے انٹیلیجنس کی بنیاد پر کریک ڈاؤن ہے۔
لیکن شمالی وزیرستان میں آپریشن ملک میں جاری دہشتگردی اور انتہاپسندی کے خلاف جنگ کا صرف ایک رخ ہے۔ ضربِ عضب کو عوامی سطح پر توقعات سے زیادہ پذیرائی ملی ہے، لیکن اب بھی طویل مدت میں دہشتگردی اور عسکریت پسندی سے نمٹنے کے لیے کوئی واضح اور ٹھوس حکمتِ عملی موجود نہیں ہے۔ خطرہ یہ ہے کہ فوج کی جانب سے شمالی وزیرستان اور دیگر قبائلی ایجنسیوں میں حاصل کیے گئے فوائد ضائع ہوسکتے ہیں۔ ہمیں گذشتہ آپریشنز سے سبق سیکھنا چاہیے۔ کلیئر قرار دیے علاقوں میں دہشتگرد ایک بار نہیں بلکہ بار بار واپس لوٹ چکے ہیں۔
ہماری حکمتِ عملی میں ایک بڑی غلطی یہ ہے کہ ہم نے پوری توجہ فوجی کارروائی پر مرکوز کر رکھی ہے، لیکن قبائلی لوگوں کی زندگیوں میں بہتری لانے کی جانب کسی کی توجہ نہیں ہے۔ اس وقت قبائلی علاقوں، بشمول ان ایجنسیوں کے جنہیں کلیئر قرار دے دیا گیا ہے، میں کوئی مناسب انتظامی سسٹم موجود نہیں ہے۔
بدقسمتی سے حکومت نے آئی ڈی پیز کو بھی مکمل طور پر بھلا دیا ہے، جس سے لوگوں کا حکومت پر سے اعتماد کم ہوا ہے، اور ان میں ملک و ریاست سے لاتعلقی بڑھ رہی ہے۔ جنوبی وزیرِستان میں آپریشن کو پانچ سال سے زیادہ ہوچکے ہیں، لیکن اب بھی بڑی تعداد میں لوگ اپنے گھروں کو واپس نہیں لوٹ سکے ہیں۔
سول اور فوجی قیادت کے لیے ایک بڑا چیلنج تقریباً 12 لاکھ آئی ڈی پیز کی واپس آبادکاری ہوگا۔ صرف طالبان کو مار بھگانا کافی نہیں ہے، بلکہ ان ایجنسیوں کو قومی دھارے میں لانا، اور انہیں ملک کے دیگر حصوں کی طرح سیاسی اور اقتصادی حقوق دینا بھی ضروری ہے۔
یہ ضرور ہے کہ اس سب میں وقت لگے گا، لیکن شروعات تو کی جائے۔ مسلسل لڑائی نے اس علاقے کے لوگوں کے لیے نئی زندگی شروع کرنا مشکل بنا دیا ہے۔ ایجنسی کے مرکزی علاقوں میرانشاہ اور میر علی بمباری کی وجہ سے ملبے کے ڈھیر میں تبدیل ہوچکے ہیں، اور ان کی تعمیرِ نو اور اقتصادی سرگرمیوں کی بحالی میں بہت وقت لگنے والا ہے۔
طویل مدت میں قبائلی علاقوں کے پیچیدہ مسائل کا واحد حل فوجی آپریشن نہیں ہے۔ پاکستان کو قبائلی آبادی کی پسماندگی کو ختم کرنے کے لیے فوری اقدامات کرنے چاہیئں، جبکہ حالیہ فوجی آپریشن نے پاکستان کو ایک اچھا موقع دیا ہے کہ اس خطے کو قومی دھارے میں لا کر اس کی نیم خود مختار حیثیت کو ختم کردیا جائے۔ ایک لاتعلق اور پسماندہ آبادی بلاشبہ عسکریت پسندوں کو جگہ دیتی ہے۔
قدیم زمانے کا ظالمانہ انتظامی نظام اب ختم کر دینا چاہیے، اور خطے کے عوام کو قومی عدالتی نظام کے تحت انصاف فراہم کیا جانا چاہیے۔ انسانوں اور انفراسٹرکچر پر بڑے پیمانے پر سرمایہ کاری کیے جانے کی ضرورت ہے۔ سڑکوں کا ایک جدید نیٹ ورک قبائلی علاقوں کی اقتصادی علیحدگی کو ختم کر کے انہیں باقی پاکستان اور افغانستان سے جوڑے گا۔ دوسرے الفاظ میں کہیں تو اس اہم اور جنگ سے تباہ حال خطے میں مزید جنگ کسی مسئلے کا حل نہیں ہے۔
اب جبکہ ہم پاک فوج کی جانب سے شمالی وزیرستان میں حاصل کیے گئے فوائد پر خوشیاں منا رہے ہیں، تو اسی وقت ہمیں ان تمام مسائل پر سوچنے کی بھی ضرورت ہے۔ ہمیں اپنے فوجیوں کا خون رائیگاں نہیں جانے دینا چاہیے۔
لکھاری صحافی اور مصنف ہیں۔
یہ مضمون ڈان اخبار میں 17 جون 2015 کو شائع ہوا۔