پی ٹی آئی کے حامی کا عمران خان کو مشورہ
کچھ دن پہلے پاکستان تحریک انصاف کا 19واں یوم تاسیس تھا۔ ملک بھر میں موجود کارکنوں نے یہ دن جوش و جذبے کے ساتھ منایا، پارٹی کے لیے نیک تمناؤں کا اظہار کیا، اور اس کی کامیابی کے لیے دعائیں کیں۔ یہ عمران خان کی ان تھک محنت اور پختہ عزم کا ہی نتیجہ ہے کہ وہ پارٹی جس کی 2002 میں صرف ایک قومی اسمبلی کی نشست تھی، اۤج وہ ملک کی دوسری بڑی جماعت بن چکی ہے، اور کنٹونمنٹ بورڈز کے حالیہ الیکشن دیکھنے کے بعد یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ تحریکِ انصاف ایک قومی جماعت بن چکی ہے جس کی نمائندگی پاکستان کے ہر صوبے میں ہے۔
لیکن ابھی بھی تحریکِ انصاف کو بہت سخت محنت اور تنظیم سازی کی اشد ضرورت ہے۔ اگر پارٹی کی تنظیم مضبوط ہوتی، تو بغیر کسی شک و شبہ کے تحریکِ انصاف کنٹونمنٹ بورڈز کے انتخابات میں بہتر کارکردگی پیش کرسکتی تھی۔ اس کے علاوہ 2013 کے عام انتخابات میں بھی کئی جگہوں پر پارٹی امیدواروں نے جارحانہ مہم چلانے کے بجائے صرف بینرز اور پوسٹرز پر ہی اکتفا کیا، جبکہ دوسری جماعتوں کے امیدوار ماضی میں کارکردگی نہ دکھانے کے باوجود میدان مار گئے، اور پی ٹی آئی کے حصے میں صرف چند سیٹیں آ سکیں۔
عمران خان کو چاہیے کہ اس معاملے پر سنجیدگی سے غور کریں، اور اگر ان کے پاس اتنا وقت نہیں تو پارٹی کی تنظیم سازی کی ذمہ داری کسی اور کو سونپ دیں کیونکہ اگر اس معاملے کو سنجیدگی کے ساتھ نہ لیا گیا، تو آئندہ انتخابات میں بھی یہی نتائج اۤئیں گے۔ چوہدری سرور اس معاملے میں بہت مددگار ثابت ہو سکتے ہیں۔
پڑھیے: عمران خان کے نام کھلا خط
پی ٹی آئی کو جو ایک اور اہم مسئلہ درپیش ہے، وہ پارٹی کے اندرونی مسائل اور ٹکٹس کی منصفانہ تقسیم کا نہ ہونا ہے۔ اس کی حالیہ مثال کنٹونمنٹ بورڈز کے الیکشن ہیں۔ راولپنڈی کا حلقہ NA-56، جہاں سے خود عمران خان نے 2013 کے عام انتخابات میں نشست جیتی تھی، وہاں پر مسلم لیگ (ن) نے تحریکِ انصاف کو کنٹونمنٹ بورڈ الیکشن میں کلین سوئیپ کردیا، اور بیس کی بیس نشستیں اپنی جھولی میں ڈال لیں۔
ایک رپورٹ کے مطابق پی ٹی آئی نے راولپنڈی میں ٹکٹس کی تقسیم کے لیے مقامی رہنماؤں پر مشتمل کمیٹی تشکیل دی تھی۔ کمیٹی نے ایک وارڈ سے تین نمائندے منتخب کیے، اور ان سے کہا کہ آپ باہمی مشاورت کے بعد ایک دوسرے کے حق میں دستبردار ہو جائیں تاکہ ایک امیدوار کے لیے راستہ ہموار ہو سکے۔
جب امیدوار مقررہ وقت میں آپس کے معاملات طے نہ کر سکے، تو کمیٹی نے خود ہی ٹکٹس تقسیم کرنے کا فیصلہ کیا۔ کمیٹی نے ٹکٹس اپنی پسند اور ناپسند کی بنیاد پر تقسیم کیے، جس سے پی ٹی آئی کے کارکن مزید ناراض ہوئے۔ راولپنڈی میں اس شکست کی ایک وجہ عمران خان کا یہاں سے جیتنے کے باوجود یہاں کا دورہ نہ کرنا بھی ہے۔
عمران خان کو یہ بھی چاہیے کہ وہ اپنی ماضی کی غلطیوں اور غلط فیصلوں سے سبق سیکھیں۔ ایک بہترین انسان اور لیڈر وہی ہوتا ہے، جو اپنی غلطیوں سے سبق سیکھے، اور انہیں مستقبل میں نہ دہرائے۔ اس میں کوئی دو رائے نہں کہ دھرنے نے لوگوں کو سیاسی شعور دیا، اور یہ بھی حقیقت ہے کہ اگر دھرنا نہ ہوتا تو جوڈیشل کمیشن کا قیام بھی عمل میں نہ آتا۔
لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ دھرنے کے دوران وزیراعظم کے استعفے کا خان صاحب کا مطالبہ نامناسب تھا۔ استعفے کا مطالبہ صرف اس وقت مناسب ہوتا، جب دھاندلی ثابت ہو جاتی۔ دھرنے کا بنیادی مقصد صرف دھاندلی کی تحقیقات اور انتخابی اصلاحات ہونا چاہیے تھا۔ استعفے کے مطالبے نے پی ٹی آئی کے موقف کو بھی کمزور کیا۔
جانیے: عمران خان کی پانچ غلطیاں
یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ اگر پاکستان میں آج صاف اور شفاف انتخابات کے لیے قانون سازی کی بات ہورہی ہے، تو اس کا کریڈٹ صرف عمران خان کو جاتا ہے، لیکن بہتر ہوتا کہ عمران خان اس کے لیے دھرنے کے ساتھ ساتھ پارلیمانی راستہ بھی اپنائے رکھتے، تاکہ یہ کام تیزی سے آگے بڑھتا۔ بہرحال اب جبکہ پی ٹی آئی نے اسمبلیوں میں واپس آنے کا فیصلہ کر لیا ہے، تو امید کی جا سکتی ہے کہ اگلے انتخابات کو غیر متنازع اور شفاف بنانے کے لیے اقدامات جلد از جلد پایہ تکمیل کو پہنچیں گے۔
ایک اور چیز جس پر خان صاحب کو نظرثانی کرنے کی ضرورت ہے، وہ ہے اپنے مخالفین کے لیے الفاز کا انتخاب۔ خان صاحب جذبات کی روانی میں اکثر ایسے الفاظ استعمال کر جاتے ہیں جو کہ نامناسب ہوتے ہیں اور بعد میں اس پر انہیں تنقید کا سامنا بھی کرنا پڑتا ہے۔ ایک قومی سطح کے تعلیم یافتہ لیڈر کے لیے زبان میں شائستگی لانا بہت ضروری ہے۔
یہ وہ چند چیزیں ہیں جن پر میں پی ٹی آئی کا حامی ہونے کے ناطے سمجھتا ہوں کہ خان صاحب کو توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ خاص کر کہ پارٹی کی تنظیمِ نو اور ٹکٹس کی منصفانہ تقسیم۔ اگر یہ دو چیزیں ٹھیک ہوگئیں تو کسی بھی پارٹی کے لیے تحریکِ انصاف کو ہرانا آسان نہ ہوگا۔
متعلقہ مضامین:
تبصرے (6) بند ہیں