• KHI: Asr 4:13pm Maghrib 5:49pm
  • LHR: Asr 3:27pm Maghrib 5:05pm
  • ISB: Asr 3:27pm Maghrib 5:05pm
  • KHI: Asr 4:13pm Maghrib 5:49pm
  • LHR: Asr 3:27pm Maghrib 5:05pm
  • ISB: Asr 3:27pm Maghrib 5:05pm

پی ٹی آئی کے حامی کا عمران خان کو مشورہ

شائع May 8, 2015 اپ ڈیٹ May 9, 2015
پاکستان تحریکِ انصاف کے سربراہ عمران خان — اے ایف پی
پاکستان تحریکِ انصاف کے سربراہ عمران خان — اے ایف پی

کچھ دن پہلے پاکستان تحریک انصاف کا 19واں یوم تاسیس تھا۔ ملک بھر میں موجود کارکنوں نے یہ دن جوش و جذبے کے ساتھ منایا، پارٹی کے لیے نیک تمناؤں کا اظہار کیا، اور اس کی کامیابی کے لیے دعائیں کیں۔ یہ عمران خان کی ان تھک محنت اور پختہ عزم کا ہی نتیجہ ہے کہ وہ پارٹی جس کی 2002 میں صرف ایک قومی اسمبلی کی نشست تھی، اۤج وہ ملک کی دوسری بڑی جماعت بن چکی ہے، اور کنٹونمنٹ بورڈز کے حالیہ الیکشن دیکھنے کے بعد یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ تحریکِ انصاف ایک قومی جماعت بن چکی ہے جس کی نمائندگی پاکستان کے ہر صوبے میں ہے۔

لیکن ابھی بھی تحریکِ انصاف کو بہت سخت محنت اور تنظیم سازی کی اشد ضرورت ہے۔ اگر پارٹی کی تنظیم مضبوط ہوتی، تو بغیر کسی شک و شبہ کے تحریکِ انصاف کنٹونمنٹ بورڈز کے انتخابات میں بہتر کارکردگی پیش کرسکتی تھی۔ اس کے علاوہ 2013 کے عام انتخابات میں بھی کئی جگہوں پر پارٹی امیدواروں نے جارحانہ مہم چلانے کے بجائے صرف بینرز اور پوسٹرز پر ہی اکتفا کیا، جبکہ دوسری جماعتوں کے امیدوار ماضی میں کارکردگی نہ دکھانے کے باوجود میدان مار گئے، اور پی ٹی آئی کے حصے میں صرف چند سیٹیں آ سکیں۔

عمران خان کو چاہیے کہ اس معاملے پر سنجیدگی سے غور کریں، اور اگر ان کے پاس اتنا وقت نہیں تو پارٹی کی تنظیم سازی کی ذمہ داری کسی اور کو سونپ دیں کیونکہ اگر اس معاملے کو سنجیدگی کے ساتھ نہ لیا گیا، تو آئندہ انتخابات میں بھی یہی نتائج اۤئیں گے۔ چوہدری سرور اس معاملے میں بہت مددگار ثابت ہو سکتے ہیں۔

پڑھیے: عمران خان کے نام کھلا خط

پی ٹی آئی کو جو ایک اور اہم مسئلہ درپیش ہے، وہ پارٹی کے اندرونی مسائل اور ٹکٹس کی منصفانہ تقسیم کا نہ ہونا ہے۔ اس کی حالیہ مثال کنٹونمنٹ بورڈز کے الیکشن ہیں۔ راولپنڈی کا حلقہ NA-56، جہاں سے خود عمران خان نے 2013 کے عام انتخابات میں نشست جیتی تھی، وہاں پر مسلم لیگ (ن) نے تحریکِ انصاف کو کنٹونمنٹ بورڈ الیکشن میں کلین سوئیپ کردیا، اور بیس کی بیس نشستیں اپنی جھولی میں ڈال لیں۔

ایک رپورٹ کے مطابق پی ٹی آئی نے راولپنڈی میں ٹکٹس کی تقسیم کے لیے مقامی رہنماؤں پر مشتمل کمیٹی تشکیل دی تھی۔ کمیٹی نے ایک وارڈ سے تین نمائندے منتخب کیے، اور ان سے کہا کہ آپ باہمی مشاورت کے بعد ایک دوسرے کے حق میں دستبردار ہو جائیں تاکہ ایک امیدوار کے لیے راستہ ہموار ہو سکے۔

جب امیدوار مقررہ وقت میں آپس کے معاملات طے نہ کر سکے، تو کمیٹی نے خود ہی ٹکٹس تقسیم کرنے کا فیصلہ کیا۔ کمیٹی نے ٹکٹس اپنی پسند اور ناپسند کی بنیاد پر تقسیم کیے، جس سے پی ٹی آئی کے کارکن مزید ناراض ہوئے۔ راولپنڈی میں اس شکست کی ایک وجہ عمران خان کا یہاں سے جیتنے کے باوجود یہاں کا دورہ نہ کرنا بھی ہے۔

عمران خان کو یہ بھی چاہیے کہ وہ اپنی ماضی کی غلطیوں اور غلط فیصلوں سے سبق سیکھیں۔ ایک بہترین انسان اور لیڈر وہی ہوتا ہے، جو اپنی غلطیوں سے سبق سیکھے، اور انہیں مستقبل میں نہ دہرائے۔ اس میں کوئی دو رائے نہں کہ دھرنے نے لوگوں کو سیاسی شعور دیا، اور یہ بھی حقیقت ہے کہ اگر دھرنا نہ ہوتا تو جوڈیشل کمیشن کا قیام بھی عمل میں نہ آتا۔

لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ دھرنے کے دوران وزیراعظم کے استعفے کا خان صاحب کا مطالبہ نامناسب تھا۔ استعفے کا مطالبہ صرف اس وقت مناسب ہوتا، جب دھاندلی ثابت ہو جاتی۔ دھرنے کا بنیادی مقصد صرف دھاندلی کی تحقیقات اور انتخابی اصلاحات ہونا چاہیے تھا۔ استعفے کے مطالبے نے پی ٹی آئی کے موقف کو بھی کمزور کیا۔

جانیے: عمران خان کی پانچ غلطیاں

یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ اگر پاکستان میں آج صاف اور شفاف انتخابات کے لیے قانون سازی کی بات ہورہی ہے، تو اس کا کریڈٹ صرف عمران خان کو جاتا ہے، لیکن بہتر ہوتا کہ عمران خان اس کے لیے دھرنے کے ساتھ ساتھ پارلیمانی راستہ بھی اپنائے رکھتے، تاکہ یہ کام تیزی سے آگے بڑھتا۔ بہرحال اب جبکہ پی ٹی آئی نے اسمبلیوں میں واپس آنے کا فیصلہ کر لیا ہے، تو امید کی جا سکتی ہے کہ اگلے انتخابات کو غیر متنازع اور شفاف بنانے کے لیے اقدامات جلد از جلد پایہ تکمیل کو پہنچیں گے۔

ایک اور چیز جس پر خان صاحب کو نظرثانی کرنے کی ضرورت ہے، وہ ہے اپنے مخالفین کے لیے الفاز کا انتخاب۔ خان صاحب جذبات کی روانی میں اکثر ایسے الفاظ استعمال کر جاتے ہیں جو کہ نامناسب ہوتے ہیں اور بعد میں اس پر انہیں تنقید کا سامنا بھی کرنا پڑتا ہے۔ ایک قومی سطح کے تعلیم یافتہ لیڈر کے لیے زبان میں شائستگی لانا بہت ضروری ہے۔

یہ وہ چند چیزیں ہیں جن پر میں پی ٹی آئی کا حامی ہونے کے ناطے سمجھتا ہوں کہ خان صاحب کو توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ خاص کر کہ پارٹی کی تنظیمِ نو اور ٹکٹس کی منصفانہ تقسیم۔ اگر یہ دو چیزیں ٹھیک ہوگئیں تو کسی بھی پارٹی کے لیے تحریکِ انصاف کو ہرانا آسان نہ ہوگا۔


متعلقہ مضامین:

وڈیروں کا کندھا مت تلاش کریں

انتخابی اصلاحات کی فوری ضرورت

انتخابی اصلاحات: اگلا قدم

وقار اصغر

وقار اصغر فری لانس لکھاری، اور عمران خان کے حامی ہیں۔ انہیں کھانا پینا اور سفر کرنا پسند ہے۔

انہیں ٹوئٹر پر فالو کریں: Chaudhrywaqar22@

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔

تبصرے (6) بند ہیں

Khurram Kamran May 08, 2015 07:10pm
Very nice article. I hope it gets to IK plus as a supporter from KHI I think we need to educate the voters for the manifesto of PTI & create a theological based work force.
Imtiaz Akhter May 08, 2015 08:10pm
PTI need to better organize itself. They need to harness the many young members into working for the party. The youngsters, if properly guided can make very big difference in the progress of the party.
عبدالرؤف خاں May 08, 2015 09:12pm
میرے خیال میں جس بُنیادی چیز کی تحریک انصاف کو ضرورت ہے وہ پارٹی کےاندر جمہوریت ہے۔ تحریک انصاف متحدہ کے قائد کی جماعت ایم کیو ایم، آصف زرداری کی پیپلز پارٹی اور نواز شریف کی مسلم لیگ ن سے کتنی مختلف ہے؟ کیا تحریک انصاف میں ایسا کلچر موجود ہے کہ کوئی عمران خان کے آمرانہ رویے اور شخصی فیصلوں پر اُنگلی اُٹھا سکے۔ جس طرح سے رابطہ کمیٹی موجود ہے اسی طرح سے تحریک انصاف میں کور کمیٹی موجود ہے، لیکن دونوں کمیٹیاں ہی بے جان ہیں، جی حُضوری کا کلچر عروج پر ہے، واہ واہ کی صدائیں جو بُلند نہ کرے اُسکی نظریاتی وابستگی کو شک کی نگاہ سے دیکھا جاتاہے۔
عبدالرؤف خاں May 08, 2015 09:12pm
پھر جس غیر قانونی اور غیر جمہوری طریقے سے جسٹس وجیہ الدین کے ٹریبونل کو توڑا گیا ہے کیا ایک انصاف کا علم بُلند کرنے والی تحریک سے ایسے جابرانہ اقدام کی توقع کی جاسکتی ہے؟ بدقسمتی سے تحریک انصاف ق لیگ کا متبادل ہے۔ سب جانتے ہیں کہ جب پاکستان کی خفیہ ایجینسیوں نے ق لیگ کے غبارے میں ہوا بھری تو سارے ہی سیاست دان وفاداریاں تبدیل کرکے ق لیگ کا حصہ بن گئے۔ اور جب جنرل پاشا نے تحریک انصاف کو غبارے میں ہوا بھرنے کا آغاز کیا تو جو سٹیج پر عمران خان کے دائیں بائیں نظر آتے ہیں یہ کبوتر سے بھی تیزی سے تحریک انصاف کی چھتری پر آن بیٹھے۔ تحریک انصاف جس کا نعرہ ہی یہ ہے کہ چہرے نہیں نظام کو بدلو، تو یہ چہرے کونسا نظام بدلنے کی جدوجہد کررہے ہیں؟ اے کاش لکھاری یہ بھی لکھ دیتے کہ عمران خان کو اچھی روایات کے فروغ کے لیے ایک مثال بننا ہوگا، اور عمران خان کا کوئی حق نہیں ہے کہ وہ کے پی کے کی حکومت کے ہیلی کاپٹر کو اپنے استعمال میں لے کر آئیں۔
Em Moosa May 08, 2015 09:22pm
Ek aur baat Imran khan ne apne saare bure waqt ke sathion ko kinaare laga diya hai aur unlogon ko apne saath bitha liya hai jo har daal per daana chugne beth jaate hain. In sab per corruption ke ilzaam hain lekin kuyonke yeh apne ilaqon se election jeet sakte hain isliye Imran ke qarib jaga bana li hai. Kaya yeh Imran ke qol aur fael mein munafiqat nahin?. Yeh log koi tabdeeli nahin lasakte jo mazaaron ki aamadni per zindah hain.
Waqar Asghar May 08, 2015 11:16pm
@عبدالرؤف خاں میں آپ کی اس بات سے اتفاق نہیں کرتا کہ عمران خان کا رویہ آمرانہ ہے۔ اس کی ایک مثال عمران خان کا اسمبلیوں میں واپس جانا ہے۔ خان صاحب کی رائے تویہ تھی کہ جوڈیشل کمیشن کے فیصلے تک اسمبلیوں میں نہ جایا جائے لیکن پارٹی میں موجود اکثریت کی رائے اس سے برعکس تھی۔ عمران خان نے اکثریتی فیصلے کو مانا اور اسمبلی گئے۔ اور جناب یہ واحد پارٹی ہے جس نے پارٹی کے اندر الیکشن کروائے۔ لیکن وہ الیکشن دھاندلی زدہ تھے اس لیے دوبارہ انتخابات ہونے والے ہیں۔ یہ اور کسے پارٹی میں نہیں ہوتا۔

کارٹون

کارٹون : 23 دسمبر 2024
کارٹون : 22 دسمبر 2024