میں نے کوئی غلط کام نہیں کیا!
ڈیل کارنیگی ’’اپنی مدد آپ‘‘ طرز کی کتابوں کے مشہور امریکی مصنف تھے۔ انسانی نفسیات اور انسانی رویوں کے بارے میں ان کی کتابیں بہت سی زبانوں میں ترجمہ ہو کر دنیا بھر میں انسانی رویے سمجھنے کے حوالے سے لوگوں کی رہنمائی کرتی ہیں۔ وہ مختلف واقعات اور مثالوں کی مدد سے انسان کے سوچنے کے انداز کی وضاحت کرتے ہیں۔
ایسی ہی ایک مثال ان کی ایک شہرہ آفاق کتاب میں موجود ہے۔ امریکی پولیس نے ایک انتہائی خطرناک سیریل کلر کو گرفتار کیا جس نے پورے امریکا میں دہشت پھیلائی ہوئی تھی۔ وہ بیسیوں انسانوں کو قتل کر چکا تھا۔ گرفتار ہونے کے بعد اس نے کسی تاسف کا اظہار نہیں کیا، نہ اسے کوئی پچھتاوا تھا۔ بلکہ اس کا کہنا تھا کہ ’’میں نے کوئی غلط کام نہیں کیا!‘‘
ہوبارہ بسٹرڈ پرندوں کی ایک ایسی نسل ہے جو تیزی سے معدوم ہو رہی ہے۔ دنیا بھر کے نایاب ہوتے پرندوں کی عالمی فہرست میں یہ شامل ہے۔ اس پرندے کی بدقسمتی یہ ہوئی کہ عرب شہزادوں اور رئیسوں میں یہ مشہور ہے کہ اس پرندے کا گوشت مبینہ طور پر مردوں کی جنسی طاقت کے لیے بہت مفید ہے۔ اس سے بھی بڑی زیادتی اس پرندے کے ساتھ یہ ہوگئی کہ یہ مختلف ملکوں کے اپنے سفر کے دوران پاکستان سے بھی گزرتا ہے، جن میں بلوچستان اور جنوبی پنجاب کے علاقے شامل ہیں۔ سو پاکستانی حکومت ان عرب شہزادوں کو خوش کرنے کے لیے ہر سال انہیں اس معدوم ہوتے پرندوں کے شکار کے لائسنس جاری کرتی ہے۔
اس دفعہ میڈیا میں اس ظلم کے خلاف کافی شور مچا۔ لوگ عدالتوں میں گئے، عدالتوں نے لائسنس کینسل کیے، اس کے باوجود عرب شہزادے پاکستان آئے اور ان معصوم پرندوں کا شکار کھیل کر چلتے بنے۔ اس سارے عمل میں پاکستانی حکومت اور متعلقہ ادارے اس بات پر پردہ ڈالتے رہے، حالانکہ میڈیا میں یہ ساری حرکت رپورٹ ہوتی رہی۔ اتفاق سے وہ ادارہ جو ان شہزادوں کو لائسنس جاری کرتا ہے، وہ وزارتِ خارجہ ہے اور جس دفتر سے یہ لائسنس جاری ہوتے ہیں، اس دفتر سے میں کچھ عرصے کے لیے وابستہ رہا ہوں۔ دوہرا اتفاق یہ کہ جس افسر کے نام سے یہ لائسنس جاری ہوئے، وہ میرے جاننے والے ہیں۔
انہی دنوں کسی کام سے دفترِ خارجہ جانا ہوا تو میں ان کے پاس چلا گیا اور شکوہ کرتے ہوئے ان لائسنسوں کا ذکر کیا تو وہ کہنے لگے کہ عدالتیں بھی مجھے بلاتی رہتی ہیں۔ میں وہاں بھی ایک ہی سوال پوچھتا ہوں کہ کیا ڈائنا سار بھی میرے لائسنس جاری کرنے سے ہی معدوم ہوئے تھے؟ دوسرے لفظوں میں ان کا مطلب تھا کہ میں نے کوئی غلط کام نہیں کیا!
اسلام آباد کا ایک مشہور تھانیدار ہے۔ بڑا کماؤ پُتر ہے۔ ہر تھانے میں اس کی ڈیمانڈ ہے۔ ہر ایس ایچ او چاہتا ہے کہ وہ اس کے تھانے میں آجائے۔ الزام ہے کہ اسلام آباد میں زیادہ تر تھانے بولیوں پر دیے جاتے ہیں، اس لیے ایس ایچ اوز پر بڑا پریشر ہوتا ہے کہ انہوں نے جو ادائیگی تھانہ لینے کے لیے کی ہوتی ہے، اس کو جلد از جلد پورا کر کے منافع کمانا ہوتا ہے، اس سے پہلے کہ اس کی ٹرانسفر ہو جائے۔
اسی پریشر کی وجہ سے اس طرح کے کماؤ پُتر قسم کے تھانیداروں کی بڑی ڈیمانڈ ہوتی ہے۔ ویسے تو تھانے میں بہت سے تھانیدار ہوتے ہیں، لیکن کماؤ پُتر ایک دو ہی ہوتے ہیں۔ تھانے میں جو کیس بڑے مال پانی والے ہوتے ہیں وہ اُسی تھانیدار کو ملتے ہیں کیونکہ وہ کیس میں سے پیسے ایسے نچوڑ لیتا ہے جیسے گنے کا رس نکالنے والی مشین گنے سے جوس نچوڑ لیتی ہے۔ سو قتل کو خودکشی اور خودکشی کو قتل، ملزم کو مدعی اور مدعی کو ملزم، چوروں اور ڈاکوؤں کو حاجی نمازی، اور حاجی نمازیوں کو چور ڈاکو، سارے کام اس کے بائیں ہاتھ کا کام ہے، لیکن اس سارے عمل میں وہ اتنی ریکوری کر لیتا ہے کہ ایس ایچ او کو ٹھنڈ پڑ جاتی ہے۔
ظاہر ہے اتنے کام کا بندہ افسرانِ بالا کی نظر سے کیسے بچ سکتا ہے، سو افسرانِ بالا بھی خاص یا مشکل کیس اسی کو دیتے ہیں اور ساتھ ہی یہ ہدایات بھی کہ اس کیس میں کرنا کیا ہے، سو وہ کبھی اپنے افسران کو مایوس نہیں کرتا۔ وکالت کی وجہ سے میری بھی اس کے ساتھ کبھی کبھار ملاقات ہو جاتی ہے۔ اس کا بھی کہنا ہے کہ میں نے کبھی کوئی غلط کام نہیں کیا!
الزام ہے کہ نواز شریف ضیا الحق کی ڈکٹیٹر شپ میں سیاست میں وارد ہوئے، اور ایک اہم جرنیل کو پجارو کا تحفہ ان کی سیاست کا آغاز بنا۔ کاروباری اور سرمایہ دار ذہن کے بندے ہیں، اور ایسے ذہن کی ایک خوبی ہوتی ہے کہ آم کھاتے ہیں، گٹھلیوں سے زیادہ غرض نہیں رکھتے۔ سو سیاست میں کونسا آم ہے جسے کھانے کا الزام ان پر نہ ہو۔ جوڑ توڑ، خرید و فروخت، سودے بازی، سازشیں، کمیشن، ٹیکس چوری اور جانے کون کون سی گٹھلی کا الزام ان پر لگتا ہے لیکن کوئی ان سے پوچھے تو یقیناً وہ بھی یہی کہیں گے کہ میں نے کبھی کوئی غلط کام نہیں کیا!
آصف زرداری نے بھی کبھی کوئی غلط کام نہیں کیا۔ سرے پیلس، سوئس اکاونٹس، قیمتی زیورات، گھوڑوں کو جام، منی لانڈرنگ، بے پناہ کرپشن، الزامات کی ایک لمبی فہرست ہے۔ الطاف حسین پر ٹارگٹ کلنگ، بھتہ خوری، منی لانڈرنگ، اپنے ساتھیوں کو قتل کروانے جیسے سنگین الزامات ہیں لیکن ان سے بھی پوچھ لیجیے، وہی جواب ملے گا "میں نے کوئی غلط کام نہیں کیا۔"
عمران خان پر الزام ہے کہ انہوں نے اپنا ہر وعدہ توڑا، ہر بات سے مکر گئے، کون سا یوٹرن ہے جو انہوں نے نہیں لیا۔ پورے پاکستان سے لوٹے اکٹھے کر لیے، اسٹیبلشمنٹ کی سازشوں کا حصہ بنے، مشرف کو بچانے کے لیے دھرنوں کا ناٹک کیا، خود اپنے بنائے ہوئے پارٹی آئین کو روند ڈالا، وزیرستان میں فوج بھیجنے کی مخالفت کرتے رہے، جس سے دہشتگرد کارروائیاں بڑھتی ہی گئیں، لیکن ان سے کوئی پوچھے تو ان کا جواب بھی یہی ہوگا کہ …
اسی طرح اسفند یار ولی، فضل الرحمان، سید منور حسن سے پوچھ لیں، سب یک زبان کہیں گے "میں نے کوئی غلط کام نہیں کیا۔" جنرل ایوب سے لے کر مشرف تک، جنرل اسد درانی سے لے کر جنرل ظہیر الاسلام تک کسی نے کبھی کوئی غلط کام نہیں کیا!
مجھ سمیت کسی سقراط صفت کالم نگار سے پوچھ لیں، کسی عالم فاضل اینکر سے سوال کریں، کسی بیوروکریٹ کی رائے لے لیں، اعلی عدلیہ کے جج صاحبان سے پوچھ لیں۔ کسی بزنس ٹائیکون سے استفسار کرلیں، کسی کارپوریٹ ایگزیکٹو کو ٹٹول کر دیکھ لیں۔ آپ کو شاید ہی کوئی ایسا شخص ملے جس نے کوئی غلط کام کیا ہو گا۔
ہوسکتا ہے کہ ہم میں سے ہر کوئی ٹھیک کہہ رہا ہو۔ ہم میں سے ہر کوئی واقعی اس بات پر یقین رکھتا ہو کہ اس نے کوئی غلط کام نہیں کیا۔ لیکن کیا کوئی کسی دوسرے کے بارے میں بھی کہہ سکتا ہے کہ اس نے کوئی غلط کام نہیں کیا؟ ہم اپنے لیے جو معیار رکھتے ہیں، اپنے بُرے سے بُرے کام کے لیے جو تاویلیں گھڑتے ہیں، کیا وہی معیار اور تاویلیں ہم دوسروں کے لیے بھی استعمال کر سکتے ہیں؟
اگر انسانی رویوں کی سائنس کو سامنے رکھیں تو ہمارے لیے سب سے مشکل کام اپنی غلطیوں کا احساس کرنا، اور سب سے آسان دوسروں کو غلط قرار دینا ہے۔ کیا ہم سب کو اپنے آپ سے یہ سوال نہیں کرنا چاہیے کہ اگر ہم میں سے ہر کسی نے کوئی غلط کام نہیں کیا تو پھر ہمارا ملک اور معاشرہ جن حالات سے دوچار ہے اس کا ذمہ دار کون ہے؟
تبصرے (4) بند ہیں