کیا توہین کے قانون پر تنقید گستاخی ہے؟ عدالت کا سوال
اسلام آباد: پنجاب کے سابق گورنر سلمان تاثیر کے قاتل ممتاز قادری کی جانب سے دائر کی گئی اپیل کی سماعت کرنے والے اسلام آباد ہائی کورٹ کے بینچ نے صفائی کے وکلاء کی ٹیم سے سوال کیا کہ توہین رسالت کے قانون پر تنقید کرنا بذاتِ خود ایک توہین کا عمل ہے؟
جسٹس نور الحق این قریشی اور جسٹس شوکت عزیز صدیقی پر مشتمل اسلام آباد ہائی کورٹ کے ڈویژن بینچ نے جمعہ کے روز سلمان تاثیر کا ایک بیان پڑھ کر سنایا، جس میں انہوں نے توہین رسالت کے قانون کو ایک ’سیاہ قانون‘ قرار دیا تھا۔
اس نکتے پر ججوں نے ممتاز قادری کے وکیل سابق جسٹس میاں نذیر احمد سے سوال کیا کہ کیا سلمان تاثیر اس وقت گستاخی کے مرتکب ہوئے تھے، جب انہوں نے سابق فوجی آمر جنرل ضیاءالحق کے عہد کے دوران نافذ کیے گئے ایک قانون پر تنقید کی تھی۔
جج نے غور کرنے کے لیے کہا کہ ’’کیا ان کا اعمال توہین رسالت کے قانون کے دائرہ کار کے تحت آگئے تھے۔‘‘انہوں نے مزید کہا ’’اگر یہ مان بھی لیا جائے، جیسا کہ خیال کیا جاتا ہے کہ سلمان تاثیر گستاخی کے مرتکب ہوئے تھے، تو کیا ان کے ساتھ قانون کے تحت نہیں نمٹنا چاہیے تھا۔‘‘
لیکن اس سوال سے گریز کرتے ہوئے فاضل وکیل نے اس بات کو دوہرایا کہ رسولِ پاک حضرت محمد ﷺ نے خود گستاخی کا ارتکاب کرنے والوں کو سزا دینے کے لیے بھیجا تھا۔
تاہم عدالتی بینچ نے اس حوالے سے اپنے ریمارکس میں کہا کہ رسول پاک ﷺ انتظامی اختیارات کے ساتھ ساتھ عدالتی اختیارات بھی رکھتے تھے۔ انہوں نے مزید کہا کہ دوسرے خلیفہ راشد حضرت عمر فاروقؓ کے دور میں عدلیہ کو انتظامیہ سے علیحدہ کردیا گیا تھا۔
ممتاز قادری کے وکیل نے دعویٰ کیا کہ توہین رسالت کے موضوع پر انہیں اپنی ریسرچ کے دوران زیادہ سے زیادہ 115 مقدمات مل سکے، جن میں گستاخی کے مرتکب ملزموں کو تقریباً چودہ صدیوں کے دوران موت کی سزا دی گئی۔
انہوں نے اس جانب بھی اشارہ کیا کہ ان سزاؤں میں مسیحیوں کی جانب سے دی گئی سزائیں بھی شامل ہیں، جنہوں نے یورپ میں مذہب کے نام پر پھانسیاں دی تھیں۔
سابق جسٹس میاں نذیر احمد نے الزام عائد کیا کہ مغرب دوہرا معیار رکھتا ہے، ایک جانب وہ ہولوکاسٹ کے واقعے سے انکار کی اجازت نہیں دیتا، تو دوسری جانب وہ ’آزادیٔ اظہارِ رائے‘ کے نام پر ایسی چیزوں کی اشاعت کی اجازت دیتا ہے، جس سے مسلمانوں کے جذبات ٹھیس پہنچ سکے۔
ممتاز قادری کے وکیل سابق جسٹس میاں نذیر احمد اسلام آباد ہائی کورٹ میں ممتاز قادری کی سزا کے خلاف اپیل کے مقدمے کی پیروی کے لیے اسلام آباد ہائی کورٹ آرہے ہیں۔ —. فوٹو آئی این پی |
جج کے عہدے پر فائز رہنے کے بعد اب وکالت کرنے والے میاں نذیر احمد نے دلیل دی کہ بعض حالات میں افراد گستاخی کا ارتکاب کرنے والوں کے خلاف ازخود کارروائی کرسکتے ہیں۔
اس موقع پر جسٹس نور الحق این قریشی نے تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ یہاں تک کہ ایک جج بھی ملزم کو ہاتھ لگانے کا اختیار نہیں رکھتا۔ انہوں نے کہا کہ ایک ڈسٹرکٹ اور سیشن جج کسی سزایافتہ ملزم کو سزائے موت دے سکتا ہے، لیکن وہ خود اس مجرم کو گولی نہیں مارسکتا۔
انہوں نے مزید کہا کہ ایسی صورت میں جبکہ ایک جج کسی مجرم کو کسی طرح کا نقصان پہنچاتا ہے تو اس جج کے ساتھ قانون کے مطابق محاسبہ کیا جائے گا، اور ایک مقدمہ اس کے خلاف درج کیا جائے گا۔
قادری کے وکیل نے دعویٰ کیا کہ ان کا مؤکل ایک ایماندار پولیس اہلکار تھا، اور اس نے ماضی میں بہت سے انتہائی اعلیٰ سطح کے افراد کے ساتھ خدمات انجام دی تھیں۔
انہوں نے یہ دعویٰ بھی کیا کہ ممتاز قادری کو مجرم ثابت کرنے کے لیے ثبوت کافی نہیں تھے۔
جسٹس شوکت عزیز صدیقی نے فاضل وکیل سے پوچھا کہ کیا ممتاز قادری نے بطور ایک پولیس اہلکار اس بات کا حلف لیا تھا کہ وہ اپنے ساتھی شہریوں کی جانوں کی حفاظت کرے گا۔
انہوں نے کہا کہ اگر اس کو یقین تھا کہ سلمان تاثیر نے ایسا کچھ غلط کیا تھا تو اس کو قانون کے مطابق ان کے ساتھ نمٹنا چاہیے تھا۔
جسٹس شوکت صدیقی نے اس کے بعد فاضل وکیل سے پوچھا کہ عدالتی بینچ کو اس معاملے پر جذبات اور احساسات کی بنیاد پر فیصلہ کرنا چاہیے یا پھر سختی کے ساتھ قانون کے مطابق؟
اس مقدمے کی مزید سماعت دس فروری تک ملتوی کردی گئی۔
تبصرے (1) بند ہیں